کہنے کو مقبوضہ بیت المقدس عرب ممالک کا ثقافتی دارالحکومت اور عالم اسلام کا تیسرا مقدس ترین شہر ہے مگر اس شہر کے دفاع اور اس کی آزادی کے لیے مسلم امہ کی مساعی کا کہیں وجود تک دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ دوسری طرف قابض یہودی اور صہیونی قوتیں دن رات بیت المقدس کو یہودیانے کی سازشوں کو جاری رکھ کر مقدس شہر کا جغرافیائی اور آبادیاتی نقشہ بدل رہی ہیں۔
یہ عالم اسلام کی بدقسمتی ہے کہ وہ صہیونیوں کی ان بخار آلود سازشوں کے سامنے بند باندھنے کی کوئی موثر تو کیا معمولی نوعیت کی کاوش کرنےمیں بھی بری طرح ناکام ہیں۔ صہیونی ریاست اور اس کے تمام ذیلی ادارے حتیٰ کہ ارض فلسطین کویہودیانے کی سازشوں میں سرگرم عمل تمام غیر سرکاری تنظیمیں دن رات، ہفتے کے ساتوں دن اور سال کے بارہ مہینے دسیوں توسیعی منصوبے جارہی رکھے ہوئے ہیں۔ اب تک صورت حال یہ ہے کہ صہیونیوں نے بیت المقدس کا نقشہ بدلنے اور اسے یہودیوں اور صہیونیوں کا شہر ثابت کرنے کے لیے سازشوں میں ماضی کے تمام ریکارڈ بھی توڑ دیے ہیں۔
گرین لائن ختم کرنے کی مہم
فلسطین کے سنہ 1948ء کے دوران قبضے میں لیے گئے فلسطینی علاقوں اور سنہ 1967ء کی جنگ میں زیرتسلط فلسطینی شہروں کے درمیان حد فاصل کو ’’گرین لائن‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔ صہیونی ریاست کی دیگر سازشوں میں ایک بڑی سازش اس گرین لائن کو مٹا کر فلسطین کے سنہ 1967ء کی جنگ میں قبضے میں لیے گئے فلسطینی علاقوں کو بھی صہیونی ریاست کے اندرونی شہروں میں شامل کرنا ہے۔ اس مذموم مقصد کی خاطر اسرائیل کے ملٹری گورنر نے حال ہی میں ایک اعلان کیا ہے جس میں اس کا کہنا ہے کہ اب مشرقی اور مغربی بیت المقدس کے درمیان ’گرین لائن‘ کی کوئی حیثیت نہیں رہی ہے۔ اس ضمن میں سنہ 1948ء کی جنگ کے دوران قبضے میں لیے گئے فلسطینی علاقوں کی سرحد کے دونوں اطراف ایک بڑا صنعی سیکٹر قائم کیا جا رہا ہے جوایک طرف کو اندرون فلسطین بیت صفافا اور بیت سیرا کے مقام پر ہوگا اور دوسری طرف غرب اردن کے وسطی علاقے رام اللہ تک پھیلے گا۔ رام اللہ میں یہ صنعتی سیکٹر مودیعین یہودی کالونی کے قریب قائم کردہ فوجی چوکی تک اس کی توسیع کی جائے گی۔
فلسطینی تجزیہ نگار اور اسرائیلی توسیع پسندی کے امور پرنظر رکھنے والے صحافی خلیل تفکجی نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صنعتی سیکٹر کا قیام اسرائیل کے کئی دوسری جاری توسیعی منصوبوں ہی کی ایک کڑی ہے۔ صہیونی ریاست سنہ 1991ء میں قبضے میں لی گئی بیت صفا اور بیت سیرا کے مقامات کی اراضی پر 310 دونم کے رقبے پر صنعتی سیکٹر قائم کرکے دراصل گرین لائن کو مزید طول دینا چاہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ صرف غرب اردن اور اندرون فلسطین کے درمیان صنعتی سیکٹر کے قیام کے ذریعے علاقے پر تسلط جمانے کا منصوبہ نہیں بلکہ اس منصوبے کے ضمن میں کئی دوسرے پروجیکٹ بھی روبہ عمل ہیں۔ ان میں شمالی فلسطین سے بیت المقدس اور وہاں سے رام اللہ میں مودیعین کالونی تک ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ یہ منصوبہ سنہ 2017ء کے آخر میں مکمل ہوگا۔
خلیل تفکجی نے بتایا کہ اسرائیل کا مجوزہ صنعتی سیکٹر صہیونی ریاست کا دوسرا بڑا سیکٹر ہے جو تل ابیب، بیت المقدس اور غرب اردن تک وسیع ہوگا۔ مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے حوالے سے یہ ماحولیاتی اعتبار سے بھی انتہائی خطرناک منصوبہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ صنعتی سیکٹر عین ان علاقوں میں قائم کیا جا رہا ہے جہاں آس پاس گنجان آباد فلسطینی شہر اور قصبے آباد ہیں۔
نئے منصوبے
فلسطینی تجزیہ نگار نے بتایا کہ صہیونی ریاست نے یہودی توسیع پسندی کے ریکارڈ ساز منصوبے شروع کر رکھے ہیں۔ صرف صنعتی سیکٹر ہی نہیں بلکہ سنہ 1970ء میں غصب کی گئی اراضی پر ایک بڑا تعمیراتی منصوبہ شروع کیا جا رہا ہے۔ یہ تعمیراتی منصوبہ جنوبی بیت المقدس کے نشیبی علاقوں بیت جالا میں کئی ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے جہاں پرصہیونی ریاست نے یہودیوں کی آباد کاری کے لیے 1200 مکانات تعمیر کرنے کا اعلان کیا ہے۔
خلیل تفکجی نے کہا کہ بیت جالا میں بڑا توسیعی پروجیکٹ جلد ہی شروع کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اگرچہ امریکا اور عالمی برادری کی طرف سے دباؤ کے بعد اس منصوبے کو موخر کیا گیا ہے مگر منسوخ نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل میں انتہا پسند جماعتوں کے برسراقتدار آنے اور بیت المقدس میں نیر برکات کا میئر کا عہدہ سنھبالنے کے بعد ہم نت نئے تعمیراتی منصوبوں کے بارے میں اعلانات سن رہے ہیں۔ صہیونی حکومت اور بیت المقدس کی بلدیہ نے 2020ء تک کے توسیعی منصوبے کے لیے 58 ہزار نئے مکانات کی تعمیر کا اعلان کر رکھا ہے اور یہ تمام مکانات سنہ 1967ء کی جنگ میں قبضے میں لیے گئے فلسطینی علاقوں میں تعمیر کیے جا رہےہیں۔
اس کی تازہ مثال بیت المقدس میں درویش نامی فلسطینی خاندان کی 15 دونم اراضی پر ایک لکژری پلازہ تعمیر کرنے کی منظوری سے لی جاسکتی ہے جس میں 270 رہائشی فلیٹس بھی تعمیر کیے جائیں گے۔
سامی درویش کا کہنا ہے کہ جو اراضی صہیونی حکومت نے ان سے چھین لی ہے وہ خلافت عثمانیہ کے دور سے ان کے خاندان کی ملکیت تھی مگر قابض فوج اور ریاست نے50 سال پیشتر ان کی اراضی غصب کرلی تھی۔
گیلو کالونی میں تعمیرات
حال ہی میں صہیونی بلدیہ نے بیت المقدس میں قائم ’’گیلو‘‘[غیلو] یہودی کالونی میں 170 رہائشی اپارٹمنٹس تعمیر کرنے کا اعلان کیا۔ یہ مکانات اسرائیلی بلدیہ کے زیرانتظام پلاننگ کمیٹی کی طرف سے منظور کیے جا رہے ہیں۔
خلیل تفکجی نے انکشاف کیا کہ اسرائیلی حکومت بیت المقدس میں ’’الولجہ‘‘ کے مقام پر ایک نئی کالونی بسانے کی بھی منصوبہ بندی کر رہی ہے جس میں 5000 مکانات کی تعمیر کا منصوبہ ہے۔ اس کالونی کو بیت المقدس کی جنوب میں تعمیر کی گئی یہودی کالونیوں سے ٹرین کے ذریعے مربوط کرنے کی اسکیم تیار کی گئی ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ بیت المقدس کو تل ابیب سے تیز رفتار ریلوے لائن سے مربوط کرنے کے ساتھ غرب اردن، بیت المقدس اور اندرون فلسطین کی یہودی کالونیوں کےدرمیان سڑکوں، پلوں اور ریلوے لائنوں کا جال بچھایا جا رہا ہے۔
الغرض اسرائیل فلسطینی علاقوں میں جس تیزی کے ساتھ تعمیراتی اسکیموں پر کام کررہا ہے اس کا مقصد ’’القدس الکبریٰ‘‘ نامی منصوبے کو آگے بڑھانا ہے۔ اس مذموم سازش کے لیے پورا بیت المقدس اور غرب اردن کا 10 فی صد رقبہ ہتھیانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ اسرائیل کی سابقہ حکومتوں کے شروع کردہ منصوبے پر تیزی کے ساتھ کام موجودہ حکومت کے دور میں شروع ہوا ہے۔ مگر بدقسمتی سے عالم اسلام کی طرف سے القدس کو بچانے اور صہیونی توسیع پسندانہ عزائم کی روک تھام کے لیے کوئی مربوط اور ٹھوس لائحہ عمل شروع نہیں کیا گیا ہے۔ عالم اسلام کی مجرمانہ غفلت اور لاپرواہی ہی دراصل صہیونیوں کو توسیع پسندی کے مواقع فراہم کررہی ہے۔