فلسطین کےمقبوضہ مغربی کنارے میں بسنے والے فلسطینی ایک طرف قابض اسرائیل کی منظم ریاستی دہشت گردی اور انتہا پسند یہودیوں کی مسلح غنڈہ گردی جیسے بد ترین ظلم کا سامنا ہے۔ ایسے مقامی فلسطینی آبادی کے لیے صہیونیوں کے پروردہ جنگلی سور بھی کسی بڑی آفت اور مصیبت سے کم نہیں ہیں۔ ان جنگلی خنزیروں کے ریوڑوں کے ریوڑو فلسطینی آبادیوں میں داخل ہوکر فلسطینی شہریوں کے لیے جان ومال کا خطرہ بنے ہوئے ہوئے ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق قابض صہیونی انتظامیہ نے جنگلی سوروں کو ایک منظم حکمت عملی کے تحت فلسطینی آبادیوں میں کھلا چھوڑ رکھا ہے۔ فلسطینیوں پر انہیں مارنے اور نقصان پہنچانے پربھی پابندی ہے۔ ناپاک صہیونی اس ناپاک اور غلیظ جانور کے رکھوالے ہیں۔
غرب اردن کے بیشتر دیہاتوں میں فلسطینی شہریوں کی طرف سے جنگلی سوروں کے حملوں کی شکایات ملتی ہیں مگر غرب اردن کے شمالی شہر نابلس کے فلسطینی باسی اس ناپاک جانور کی ریشہ دوانیوں سے زیادہ ہی نالا ہیں۔ نابلس کا مغربی قصبہ دیر شرف وہ علاقہ ہے جس کے فلسطینی باشندوں کا سکون ان خنزیروں کی وجہ سے برباد ہوچکا ہے۔ فلسطینی نہ تو رات کو سکون سے آرام کرسکتے ہیں اور نہ ہی دن کو اپنے کھیتوں کھلیانوں اور باغات میں آزادانہ کھیتی باڑی کرسکتے ہیں کیونکہ سوروں کے ریوڑ کسی بھی وقت اجتماعی طور پر فلسطینیوں پر حملہ آور ہوکر انہیں جان ومال کا غیرمعمولی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ جنگلی خنزیروں کی طرف سےفلسطینی آبادی، باغات، فیصلوں اور سبزیوں کے باغوں پرحملے اب روز کا معمول بن چکے ہیں۔
مقامی فلسطینی شہریوں کا کہنا ہے کہ دیر شرف اور اس کے اطراف میں سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں جنگلی سوور موجود ہیں۔ آبادی سے تھوڑے فاصلے پرجنگلوں، غاروں، پہاڑی ٹیلوں حتیٰ کے سوریج لائنوں میں یہ پھلتے پھولتے ہیں اورصہیونی انتظامیہ انہیں ہرممکن تحفظ فراہم کرتی ہے۔ چونکہ یہودی کالونیوں کے اطراف میں دیواریں کھڑی کی گئی ہیں، اس لیے یہ سور ان کالونیوں میں داخل نہیں ہوسکتے مگر انہوں نے دیر الشرف اور دیگر مقامات پررہنے والے فلسطینی شہریوں کو سخت مصیبت میں ڈال رکھا ہے۔
شکایات کے انبار مگر شنوائی کوئی نہیں
دیر الشرف کے مقامی فلسطینی شہریوں کی طرف سے جنگلی خنزیروں کے حملوں، باغات اور فصلوں کو تباہ کرنے کی شکایات کے انبار لگا دیے ہیں مگر صہیونی انتظامیہ کی طرف سے ان شکایات پر کوئی کا توجہ نہیں دی جاتی۔ دیر الشرف کے قریب ہی اسرائیل کی ’’شافی شمرون‘‘ نامی ایک یہودی کالونی ہے۔ اس کالونی کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے جگہ جگہ اسرائیلی فوج کی چوکیاں بنا رکھی ہیں۔ ایک مقامی فلسطینی شہری علاء عنتری کہتے ہیں کہ وہ اگر ان سوروں سے نمٹنے کی کوشش بھی کریں تو اسرائیلی فوج ان کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ سووروں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جاتی۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے علاء عنتری نے کہا کہ صہیونی فوج کی موجودگی کے باعث جنگلی خنزیروں سے نمٹنا مشکل ہوچکا ہے۔ خنزیروں کے غولوں کے غول دن رات فلسطینی آبادیوں میں داخل ہوتے ہیں۔ فلسطینیوں پرحملے کرتے اور فصلوں اور پھل دار پودوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ مقامی فلسطینی کسانوں اور زراعت کے لیے یہ صہیونیوں سے کم خطرناک نہیں ہیں۔
سوروں کے ستائے ایک مقامی شہری ابو فراس نوفل نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم جب اپنے کھیتوں کی طرف گھر سے نکلتے ہیں تو اپنی جانوں کی حفاظت کا ہمیں ذرا بھی یقین نہیں ہوتا۔ جب بھی کھیتوں میں جائیں تو وہاں پر سور موجود ہوتے ہیں۔ اگر فصلیں کھڑی ہیں تو انہیں تباہ کردیتے ہیں۔کاٹی ہوئی فصلوں کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ وہ قابض صہیونیوں کی ایک نئی شکل ہے۔
ابو فراس کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی دن نہیں گذرتا کہ ہمیں خنزیروں کے فلسطینیوں اور ان کی املاک پرحملوں کی شکایات سننے کو نہ ملتی ہوں۔ دن ہو کہ رات خنزیر فلسطینیوں کے لیے ہمہ وقت خطرہ ہیں۔ یہ تھوڑے بھی تو نہیں۔ سیکڑوں کی تعداد میں ایک ایک ریوڑ کی شکل میں چلتے ہیں۔ فلسطینی شہری انہیں مارنے اور ان کا قلع قمع کرنے میں بھی ناکام ہیں۔ شکایات کے انبار ہیں مگر ان کی شکایات پر کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔
خوف اور بربادی کی علامت
مقامی دیہی کونسل کے فلسطینی چیئرمین زیاد الزعنون نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نابلس اور دوسرے فلسطینی علاقوں میں بڑی تعداد میں پائے جانے والے جنگی سور خوف ، دہشت اور تباہی وبربادی کی علامت ہیں۔ دیر الشرف کا کوئی ایک فلسطینی ایسا نہیں جو ان جنگلی خنزیروں کا ستایا ہوا نہ ہو۔ صرف فصلوں اور باغات ہی کو نقصان نہیں پہنچاتے بلکہ فلسطینیوں کی جانوں کے لیے بھی خطرہ ہیں۔ خنزیوں کے حملوں کے نتیجے میں کئی فلسطینی مرد وخواتین زخمی ہوچکے ہیں۔ قریب واقع یہودی کالونی کی وجہ سے مقامی فلسطینی آبادی ان خنزیروں سےنمٹنے سے بھی عاجز ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی کسان اپنی جان مار کر کھیتوں میں فصلیں کاشت کرتے ہیں مگر انہیں یقین نہیں ہوتا کہ اگلے دن ان کی فصلوں کے ساتھ خنزیروں نے کیا تباہی مچائی ہوگی۔ یوں مقامی فلسطینی آبادی کی فصلات ایک طرف صہیونیوں اور دوسری طرف خنزیروں کے رحم و کرم پر ہیں۔
اگر فلسطینی شہری خنزیریوں کو مارنا بھی چاہیں تو وہ انہیں مارنے کی اجازت نہیں کیونکہ صہیونی حکام ریاستی پالیسی کے تحت خنزیروں کی افزائش نسل کر رہے ہیں مگراس کا خمیازہ فلسطینیوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ہمیں خنزیروں کو ہلاک کرنے کے لیے ہر اور دیگر قاتل ادویات خرید کرنے سے بھی روک دیا جاتا ہے۔
خنزیر اتنے زیادہ کیوں پھیل رہےہیں؟
زیاد الزعنون نے کہا کہ نابلس اور اطراف میں جنگلی خنزیروں کے تیزی سے پھلنے پھولنے کے متعدد اسباب ومحرکات ہیں۔ اس کا پہلا سبب تو صہیونی ریاست ہے جس نے خنزیروں کے لیے کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ اسرائیلی حکومت اور انتظامیہ نہیں چاہتی کہ ان جنگلی خنزیروں کو ہلاک کیا جائے۔ یوں اگر فلسطینی شہری انہیں ہلاک کرنا چاہیں بھی تو ایسا نہیں کرسکتے۔ اگر کوئی فلسطینی خنزیر مار دے اور اس کا صہیونی فوج کو علم ہوجائے تو سور کے قاتل کو گرفتار کرلیا جاتا ہے۔
علاقے میں جنگلی خنزیروں کی افزائش نسل کی دوسری بڑی وجہ سیوریج لائنیں ہیں جو غرب اردن شہر سے مغربی حصے کی طرف بنائی گئی ہیں۔ سیورج لائنوں کے لیے کھودی گئی سرنگیں ان خنزیروں کے پھلنے پھولنے اور رہنے سہنے کے لیے بہترین ماحول فراہم کرتی ہیں جہاں یہ خطرناک جانور بے خوف رہتے اور اپنی نسل کو آگے بڑھاتے ہیں۔
الزعنون نے بتایا کہ صہیونی حکام کے پرورہ جنگلی خنزیر نہ صرف فصلوں کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ کئی قسم کے امراض کا بھی سبب بنتے ہیں۔ خنزیروں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ ،انسانی، حیوانی اور نباتاتی زندگی بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ انجیر کے پودوں کے لیے خاص طور پر یہ زہرقاتل ثابت ہوتے ہیں۔
جہاں یہ ناپاک جانور رہتا ہے وہاں ایسے مضر اور پودوں کے لیے نقصان دہ کیڑے جنم لیتے ہیں جو فصلوں اور پھل دار پودوں کے لیے بھی کسی بڑے خطرے سے کم نہیں ہیں۔