ماہرین صحت نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں بلند فشار خون کے مریضوں کی تعداد میں گذشتہ چالیس برسوں کے دوران غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے جس کے بعد اب اس مرض میں مبتلا افراد کی تعداد ایک ارب 10 کروڑ سے تجاوز کرگئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہائی بلڈ پریشر کا مرض امریض لوگوں سے غریبوں کی طرف تیزی کے ساتھ منتقل ہو رہا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق جرمن ماہرین صحت کی طرف سے جاری کردہ ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ سنہ 1975ء سے 2015ء کے دوران بلند فشار خون کا مرض امیر ملکوں سے غریب ملکوں کی طرف منتقل ہوا۔ شاید اس کی وجہ دولت مند ممالک میں خوراک کا معیار بہتر ہونا بھی ہوسکتا ہے کیونکہ غریب ملکوں میں صحت مند خوراک کی بھی قلت ہے اور عالمی معیار کے مطابق خوراک اور غذا نہیں مل رہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بلند فشار خون کے مرض کا پھیلاؤ زیادہ ان ممالک میں ہو رہا ہے جو غربت کا شکار ہیں۔ ان میں افریقا اور ایشیا کے ممالک سر فہرست ہیں جب کہ براعظم یورپ اور امریکا میں اس مرض کے شکار مریضوں کی تعداد میں بہ تدریج کمی آ رہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بلند فشار خون خون کی رگوں، جسم کے دیگر کلید حصوں مثلا دل، دماغ اور پھیپھڑوں پر دباؤ بڑھا دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہائی بلڈ پریشر کو دل کے مرض کا موجب بھی قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ دماغی فالج اوردیگر خطرناک امراض بھی بلند فشار خون کا نتیجہ ہوسکتے ہیں۔ بلند فشار خون سے سالانہ 70 لاکھ 50 ہزار افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں سیکڑوں سائنسدانوں نے 2 کروڑ افراد کے خون کے نمونوں کا تجزیہ کیا۔ لندن کے ایمپریل کولڈج کالج سے وابستہ ڈاکٹر مجید عزتی کا کہنا ہے کہ سنہ 1975ء میں ہائی بلڈ پریشر کا مرض بہت کم تھا مگر اب یہ غریب ملکوں میں ایک بہت بڑا صحت کا مسئلہ بن چکا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ خوراک میں ملاوٹ اور خالص آب وہوا سے محروم خطوں میں اس مرض کے بڑھنے کے زیادہ امکانات ہیں تاہم دولت مند ملکوں میں اس مرض کے شکار افراد کی تعداد میں کمی آ رہی ہے۔