اسرائیل کے عبرانی ذرائع ابلاغ نے انکشاف کیا ہے کہ وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقوں میں فلسطینیوں کی نجی اراضی پر قائم کردہ یہودی کالونیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ’قبرصی ماڈ‘ کو اپنانے کی ایک نئی تجویز پر غور کررہے ہیں۔ اس تجویز کے تحت متاثرہ فلسطینیوں کو اراضی واپس کرنے کے بجائے اس کا معاوضہ ادا کرکے جان چھڑا لی جائے گی۔
اسرائیل کے عبرانی اخبار’’ہارٹز‘‘ نے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو، وزیر قانون ایلیٹ شاکید، وزیر دفاع آوی گیڈور لائبرمین اور مشیر قانون ابیحائی مندلبلیت کچھ عرصے سے ’قبرصی ماڈل‘ پر غور کررہے ہیں۔ یہ قبرصی ماڈل دراصل زمین کے بارے میں فیصلہ کرنے لیے ’لینڈ کورٹ‘ کا قیام ہے۔ ایک ایسی عدالت جو فلسطینیوں کی نجی اراضی پر یہودیوں کے تعمیر کیے گئے مکانات کو تحفظ فراہم کرے گی اور اس امر کا تعین کرے گی کہ متاثرہ فریق کو اس کی ہتھیائی گئی جائیداد کے عوض کتنی رقم معاوضے کی شکل میں ادا کی جاسکتی ہے۔
عبرانی اخبار کے مطابق یہ نئی تجویز مقبوضہ مغربی کنارے کے وسطی شہر رام اللہ میں قائم ’عمونا‘ نامی یہودی کالونی کو مسمار ہونے سے بچانے کے لیے زیرغور لائی جا رہی ہے۔ اسرائیلی سپریم کورٹ’عمونا‘ نامی کالونیوں کو فلسطینیوں کی نجی اراضی پر قائم کیے جانے کی وجہ سے مسمار کرنے کا حکم دے چکی ہے مگر صہیونی حکومت عدالتی فیصلے کو مسلسل نظر انداز کررہی ہے۔ اب ایک نیا شوشہ یہ چھوڑا گیا گیا ہے کہ ایک ’لینڈ کورٹ‘ قائم کی جائے گی جو غرب اردن میں عمونا کالونی اور دیگر ایسی تمام کالونیاں جو یہودی آباد کاروں نے اپنی مرضی سے فلسطینیوں کے ملکیتی رقبے پر تعمیر کر رکھی ہیں ان کے رقبے کے معاوضے کا تخمینہ لگا کر متاثرہ فلسطینی خاندانوں کو معاوضہ ادا کرنے کا حکم دے گی۔
خیال رہے کہ ’عمونا‘ یہودی کالونی سنہ 1995ء میں یہودی آباد کاروں نے اپنی مرضی سے فلسطینیوں کی نجی اراضی پرقبضے کے بعد تعمیر کی تھی۔ فلسطینیوں نے اسرائیلی سپریم کورٹ میں ایک درخواست دی تھی جس میں اپیل کی گئی تھی کہ ’عمونا‘ کالونی ان کی نجی اراضی پر تعمیر کی گئی ہے۔ اس پر عدالت نے حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ اس کالونی کو خالی کرکے اس کی اراضی فلسطینیوں کے حوالے کرے۔ اسرائیلی حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہودی آباد کاروں نے یہ جگہ فلسطینیوں سے خرید کی تھی تاہم فلسطینی شہری صہیونی حکومت اور آباد کاروں کے دعوے کو من گھڑت اور جعلی قرا دے کر مسترد کرچکے ہیں۔
اب صہیونی حکومت نے ایک نیا حربہ ’قبرصی ماڈل‘ کا اپنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ قبرصی حکومت نے بھی پہلے شہریوں کی نجی اراضی پر آباد کاری کی تھی بعد ازاں ایک عدالت قائم کرکے مقامی باشندوں کو اس کے معاوضے ادا کیے گئے تھے۔