فلسطینی شہریوں سے نسل پرستانہ سلوک کے حوالےسے اسرائیلی حکومت اور پارلیمنٹ دونوں پیش پیش ہیں۔ گذشتہ روز اسرائیلی پارلیمنٹ نےعرب کمیونٹی کے منتخب ارکان پر ایک نئی پابندی عاید کی ہے جس کے تحت وہ جیلوں میں قید فلسطینی اسیران سے ملاقات نہیں کرسکیں گے۔ دوسری طرف عرب ارکان کنیسٹ نے فلسطینی اسیران سے ملاقات پر پابندی کی مذمت کرتے ہوئے اسے نسل پرستانہ پالیسی قرار دیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق اسرائیلی کنیسٹ کی پارلیمانی کمیٹی نے ایک تازہ فیصلے میں عرب کمیونٹی کے منتخب ارکان پرپابندی عایدکی ہے کہ وہ اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی اسیران سے ملاقات نہیں کرسکیں گے۔
صہیونی پارلیمنٹ نے اپنے فیصلے میں دھمکی دی ہے کہ عرب ارکان پارلیمان نے فلسطینی قیدیوں سے ملاقات کی تو انہیں حاصل پارلیمانی تحفظ ختم کردیا جائے گا۔ صہیونی پارلیمنٹ کا کہنا ہے کہ کسی عرب رکن پارلیمنٹ نے کسی فلسطینی قیدی سے ملاقات کی کوشش کی تو سیکیورٹی ادارے اس سے کسی عام شہری کی طرح تفتیش کرسکیں گے اور اس پر عام شہریوں کی طرح پابندیاں عاید کی جائیں گی۔
خیال رہے کہ حال ہی میں اسرائیل کے عبرانی ٹی وی 7 نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ کنیسٹ کے بعض ارکان کو پارلیمانی بالادستی کو یقینی بنانے کی شرط پر جیلوں کے دوروں کی اجازت دی ہے مگر کسی رکن پارلیمنٹ کو کسی قیدی کےساتھ ملاقات کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
خیال رہے کہ اسرائیل کی جیلوں میں 7 ہزار فلسطینی پابند سلاسل ہیں۔ ڈیڑھ درجن کے لگ بھگ اسرائیلی عقوبت خانوں میں ڈالے گئے سات ہزار فلسطینی اسیران میں 400 بچے، ساٹھ سے زاید خواتین، کئی سو انتظامی حراست کے تحت قید کیے گئے فلسطینی اور سیکڑوں مریض شامل ہیں۔