اسرائیل کی ایک فوجی عدالت نے کئی ماہ تک جاری رہنے والی تحقیقات کے بعد آخر کار ایک زخمی فلسطینی نوجوان کو گولیاں مار کر شہید کرنے والے فوجی کو مجرم قرار دیا ہے مگر ساتھ ہی اسے کم سے کم سزا دینے کے دانستہ قتل کے جرم کو’غیرارادی‘ اقدام قرار دے کر مجرم کو بچانے کی بھی مذموم کوشش کی گئی ہے۔
خیال رہے کہ 20 سالہ اسرائیلی فوجی، سارجنٹ الیور ازاریہ نے 21 سالہ فلسطینی عبدالفتح الشریف کو24 مارچ 2016ء کو اس وقت سر میں گولی مار کر شہید کر دیا تھا جب عبدالفتح الشریف پہلے ہی لگنے والی گولیوں کے نتیجے میں شدید زخمی حالت میں سڑک پر پڑے ہوئے تھے اور وہ ہلنے کے قابل بھی نہیں تھے۔
یہ واقعہ مقبوضہ غرب اردن کے الخلیل شہر میں پیش آیا تھا جس میں اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا تھا کہ مقتول الشریف نے ایک دوسرے اسرائیلی فوجی کو چاقو کے وار سے زخمی کر دیا گیا تھا۔
سماعت کے دوران سارجنٹ الیور ازاریہ کا موقف تھا کہ اسے شک تھا کہ عبدالفتح الشریف نے خود کش جیکٹ پہن رکھی تھی۔ لیکن استغاثہ کا کہنا تھا کہ ازاریہ نے عبدالفتح الشریف کو گولی مارنے کا قدم انتقام کے جذبے سے اٹھایا۔ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ الشریف سے اسے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔
اسرائیل کے سرکاری ریڈیو کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فلسطینی نوجوان کے بھیانک قتل میں ملوث اسرائیلی فوجی کو مجرم قرار دیے جانے کےبعد رواں ماہ اسے سزا بھی سنائی جائے گی۔
نہتے فلسطینی نوجوان کی شہادت میں ملوث اسرائیلی فوجی کو سزا سنائے جانے کے بعد صہیونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو تل ملا اٹھا۔ وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو نے فوجی عدالت کی طرف سے ایک زخمی غیر مسلح فلسطینی حملہ آور کو قتل کرنے کا مجرم قرار دیے جانے والے اسرائیلی فوجی کو معاف کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو نے فوجی اہلکار کے ہاتھوں فلسطینی نوجوان کے قتل کا پہلے بھی دفاع کیا تھا اور وہ آج اسے سزا سے بچانے کے لیے میدان میں کود پڑے ہیں۔
نیتن یاہو نے فیس بک پر مطالبہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’میں الیور ازاریہ کو معافی دیے جانے کی حمایت کرتا ہوں۔
فلسطین میں انسانی حقوق کے حلقوں نے اسرائیلی فوجی کو عدالت سے مجرم قرار دیے جانے پر ملا جلا رد عمل ظاہر کیا ہے۔ کلب برائے اسیران کے ترجمان قدورہ فارس کا کہنا ہے کہ اسرائیلی عدالت کے فیصلے کا اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں جب تک کہ مجرم کو قرار واقعی سزا نہ دی جائے۔ دیکھنا یہ ہے کہ عدالت مجرم فوجی الیور ازاریہ کوکیا سزا سناتی ہے اور اس سزا پر کس حد تک عمل درآمد کیا جاتا ہے۔