اردن کی حکومت نے اسرائیلی کنیسٹ سے فلسطینی مساجد میں اذان پر پابندی کے متنازع قانون کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے صہیونی ریاست کی مذہبی اشتعال انگیزی قرار دیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق اردنی حکومت کے ترجمان ڈاکٹر محمد المومنی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ فلسطینی مساجد میں اذان پر پابندی کا قانون نسل پرستی کا مظہر، صہیونی ریاست کے غاصبانہ قبضے کی علامت، بین الاقوامی قوانین، بنیادی انسانی حقوق اور عالمی معاہدوں کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
اردنی حکومت کا کہنا ہے کہ اسرائیلی کنیسٹ سے ابتدائی رائے شماری کے تحت جو قانون منظور کیا گیا ہے اس کا اطلاق شمالی فلسطین کی مساجد کے ساتھ ساتھ مشرقی بیت المقدس کی مساجد پر بھی ہوگا۔ مشرقی بیت المقدس کی مساجد میں صہیونی ریاست کا متنازع قانون عالمی قوانین اور بیت المقدس کے مذہبی امور کی اردن کی نگرانی کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ اس قانون کے ذریعے بالعموم بیت المقدس اور بالخصوص مسجد اقصیٰ شریف میں اذان پر پابندی کی راہ ہموار کرنا اور یہودیوں کو کھل کھیلنے کی اجازت فراہم کرنا ہے۔
محمد المومنی نے کہا کہ اردن اور اسرائیل کے درمیان طے پائے امن معاہدے کے آرٹیکل نو کی دفعہ دو میں واضح کیا گیا ہے کہ اسرائیل بیت المقدس میں مقدس مقامات کے امور کی نگرانی کو تسلیم کرے گا۔ اذان پر پابندی کا قانون اس معاہدے کی بھی سنگین خلاف ورزی ہے۔
خیال رہے کہ گذشتہ روز اسرائیلی کنیسٹ نے ایک مسودہ قانون کی منظوری دی تھی۔ پہلی رائے شماری کے تحت منظور کردہ قانون کے تحت مشرقی بیت المقدس اور سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں موجود مساجد میں لاؤڈ اسپیکر پر اذان دینے پر پابندی عاید کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔