نیویارک ٹائمز نےکہا ہے کہ نیتن یاہو اور ان کی انتہا پسند حکومت کے بارے میں بائیڈن کے بیانات 7اکتوبر کے بعد اسرائیل کے حوالے سے امریکا کی زبان میں سب سے بڑی تبدیلی کا اشارہدیتے ہیں۔
امریکی اخبار نےمزید کہا کہ "قابض ریاست اور امریکا کے درمیان تقسیم بائیڈن کے بیانات سے کھلکر سامنے آئی ہے۔
منگل کے روز ایکسلسلہ وار بیانات میں امریکی صدر جو بائیڈن نے قابض وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو پرواضح طور پر تنقید کی تھی۔
بائیڈن نے زور دےکر کہا کہ موجودہ حکومت اسرائیل کی تاریخ کی سب سے زیادہ سخت گیرحکومت ہے اور وہدو ریاستی حل نہیں چاہتی۔ نیتن یاہو کو اپنی حکومت بدلنی ہوگی۔
انہوں نے نشاندہیکی کہ نیتن یاہو کو اسرائیل- فلسطین تنازعہ کا طویل مدتی حل تلاش کرنے کے لیے قابضحکومت کو مضبوط اور تبدیل کرنا ہوگا۔ "اسرائیل” دنیا بھر میں حمایتکھونے لگا ہے۔
انہوں نے کہا کہدنیا کے مختلف حصوں میں حقیقی خدشہ موجود ہے کہ "اسرائیل” کی حمایت کیوجہ سے امریکا اپنی اخلاقی حیثیت کھو دے گا اور یہ کہ وہ امریکا اور یورپ کی حمایتپر بھروسہ کر سکتا ہے، لیکن اب اسرائیل یورپ کی پشت پناہی بھی کھونے لگا ہے۔
بائیڈن نے کہا کہبن گویر اور اس کے ساتھی دو ریاستی حل سے کوئی لینا دینا نہیں چاہتے۔ وہ صرف تمامفلسطینیوں سے بدلہ چاہتے ہیں اور نیتن یاہو یہ نہیں کہہ سکتے کہ مستقبل میں کوئیفلسطینی ریاست نہیں ہے۔
بائیڈن نے قابضریاست کو پیغام بھیجا کہ”وہ غلطیاں نہ کریں جو ہم نے 11 ستمبر کو کیں۔ کیونکہافغانستان پر قبضہ کرنے جیسے بہت سے کام کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ نیتن یاہو کوفلسطینی اتھارٹی کو مضبوط اور مستحکم کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہییں۔
انتہا پسند صہیونیحکومت پر اپنی شدید تنقید کے باوجود بائیڈن نے اپنے سابقہ بیانات اور موقف کیتوثیق کرتے ہوئے کہا کہ "اگر اسرائیل نہ ہوتا تو ہمیں ایک ایجاد کرنا پڑتا”۔
امریکی وال سٹریٹجرنل نے کہا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن اور اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہوکے بیانات جنگ کے بعد کے منصوبوں پر شدید تقسیم اختلافات کو نمایاں کرتے ہیں۔
اخبار نے نشاندہیکی کہ نیتن یاہو کا غزہ میں فلسطینی اتھارٹی کے لیے کوئی کردار ادا کرنے سے انکارکا مقصد ان کی بگڑتی ہوئی اندرونی حمایت کو مضبوط بنانے میں مدد کرنا ہے۔
امریکی حکام کیطرف سے یہ اطلاع دی گئی تھی کہ بائیڈن انتظامیہ عرب حکومتوں پر دباؤ ڈال رہی ہے کہوہ "غزہ کو خونی دلدل میں گرنے سے روکنے” میں مدد کریں۔