خطہ فلسطین پر نظر دوڑائیں تو چپے چپے پر آزادی کے متوالوں، مجاھدوں، غازیوں اور شہیدوں کے کی لازوال قربانیوں کی یاد گاریں آج بھی ان کی انقلابی سوچ، مجاھدانہ بہادری اور جذبہ آزادی کی کہانی سناتی ہیں۔
ہمیشہ یاد رکھے جانے والے دیگر فلسطینی قصبوں میں ’صوریف‘ کی بستی کو بھی شہیدوں، غازیوں اور مجاھدوں کی امین کہا جاتا ہے۔
یہ قصبہ ان بہادر فلسطینی عسکری رہ نماؤں کی جنم بھومی ہے جنہوں نے پہلے برطانوی سامراج اور پھر صہیونی استبدادیت و نسل پرستی کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے دشمن کو لوہے کے چنے چبوائے۔
مرکز اطلاعات فلسطین نے فلسطین کے تاریخی مقامات کے سلسلے میں ایک رپورٹ میں ’صوریف‘ کا بھی انتخاب کیا ہے۔ یہ قصبہ فلسطین کی انقلابی قیادت کا مرکز کہلاتا ہے۔ سنہ 1936ء میں برپا ہونے والے انقلاب میں الشیخ ابراہیم ابو دیہ کی جرات سے لے کر سنہ 1946ء میں اخوان المسلمون کے بریگیڈ اور اس کے بعد القسام بریگیڈ، مجاھد رہنما محمد الفقیہ کہ شہادت اس کے بعد آج تک بہادر فلسطینیوں کی جائے پیداش سمجھا جاتا ہے۔
محل وقوع کے اعتبار سے صوریف دریائے اردن کے مغربی کنارے کے جنوبی شہر الخلیل کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ اس کی مختلف سطح مرتفعات، ٹیلے، وادیاں اور میدان قربانی، آزادے کے ولولے اور بہادری کی لاز زوال داستانوں سے لبریز ہیں۔ ابو شوک میں مجاھدین کی یادگار، الدیر، جبعہ، صفار میں قربانی کی داستانیں رقم کرنے، سنہ 1936ء میں برطانوی استبداد کے خلاف انقلاب کا آغازکرنے، ھگانا اور شٹیرون جیسے جرائم پیشہ غاصب مافیاؤں کے خلاف لڑنے کی کہانیوں سے بھرپور ہیں۔
تاریخ اور تہذیب وتمدن کا گہوارہ
صوریف قصبے کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ یہ قصبہ کنعانی سلطنت کے دور میں بھی آباد تھا، رومن عہد میں اسے’سریفا‘ کہا جاتا۔ سریانی زبان میں سریفا کا مطب سکے ڈھالنے کی جگہ کے لیے استعمال ہوتا۔ اس سے اس قصبے کی اس دور میں تجارتی اور تہذیبی اہمیت کابہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
رومن دور میں اس کا دوسرا نام ’سور الریف‘ بھی تھا۔ اس کے اطراف میں بلند وبالا پہاڑی سلسلوں کے ساتھ ساتھ ایک حفاظتی دیوار بھی بنائی گئی تھی۔
فلسطینی مورخ عارف العارف نے انیسویں صدی کے اوائل میں اس قصبے کا دورہ کیا اور اپنی کتاب ’بیت المقدس کا نکبہ اور جنت گم گشتہ‘ میں اس قصبے کی تاریخ اور تہذیب وتمدن کا تفصیلی احوال بیان کیا ہے۔ اسےاخلیل شہرکی ڈھال بھی کہا جاتا ہے۔ مغرب کی سمت سے لڑی جانے والی جنگوں میں یہ قصبہ غیرملکی حملہ آوروں کی راہ میں ایک مضبوط رکاوٹ رہتا۔ برطانوی سامراج اور صہیونی استبداد کے خلاف بھی اس قصبے کے باشندوں نے بے پناہ قربانیاں پیش کیں۔
سنہ 1936ء کا انقلاب
سنہ 1935ء میں صوریف سے تعلق رکھنے والے الشیخ ابراہیم ابو دیہ الشیخ عزالدین القسام کے ساتھ مل کر برطانوی سامراج کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ بعد ازاں اس قافلے میں الخلیل شہر کے قاید عبدالحلیم الجیلانی بھی شامل ہوگئے۔ الشیخ ابو دیہ کی قیادت میں مزاحمت نے الدوایمہ، بیت جبریل، زکریا اور کئی دوسرے مقامات پر صہیونیوں کی بستیوں کا نقشہ تبدیل کردیا۔ بڑی تعداد میں صہیونی ہلاک اور زخمی ہوئے۔ جنگ میں کئی مجاھدین نے بھی جام شہادت نوش کیا۔
فلسطینی مورخ حسن الھدمی نے مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سنہ 1946ء میں صوریف میں اخوان المسلمون کی بنیاد رکھی گئی اور جماعت کا مقامی مرکز اسی قصبے میں بنایا گیا۔ یہاں پر اخوان المسلمون کے مرکز کے قیام کا مقصد مجاھدین کو ہرممکن مدد فراہم کرنا تھا۔ برطانوی افواج کے خلاف لڑائی میں الشیخ ابراہیم ابو دیہ کی قیادت میں بڑی تعداد میں فلسطینی مجاھدین نے حصہ لیا۔ صوریف میں سب سے مشہور معرکے باب الواد اور اللطرون کو قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ معرکہ قسطل بھی اہمیت کا حامل ہے مگر اس لڑائی میں فلسطینی مجاھدین کے لیڈر اور تحریک انقلاب کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنےوالے عبدالقادر الحسنی نے جام شہادت نوش کیا۔ الشیخ ابو دیہ نے انقلابی تحریک کو آگے بڑھایا مگر وہ بھی رامات راحیل معرکے کے دوران شدید زخمی ہوئے۔ انہیں علاج کے لیے بیروت منتقل کیا گیا مگر وہ جاں بر نہ ہوسکے اور سنہ 1952ء میں جام شہادت نوش کرگئے۔
خونی مزاحمت اور انقلاب
سنہ 1936ء کی یادگار مزاحمتی اور انقلابی تحریک کے بعد صوریف کے باشندے خاموش نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے سنہ 1987ء میں شروع ہونے والی پہلی تحریک انتفاضہ میں بھرپور طریقے سے حصہ لیا۔ یہاں کے مجاھدین مصطفیٰ اور زیاد اغنیمات نے ایک مزاحمتی سیل تشکیل دیا، بعد ازاں صہیونی فوج نے انہیں حراست میں لیا اور 29 سال قید کی سزا سنائی تھی اسی علاقے سے تعلق رکھتے تھے۔ اس گروپ میں شامل ہونے والے دیگر مقامی مجاھدین میں محمد عدوان، محمد اغنیمات، محمود النجار اور محمد الخلایلہ جو صہیونی فوج کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے شہید ہوگئے تھے۔
صوریف کے مجاھدین نے اپنی تحریک مزاحمت کو ایک نئی شکل اس وقت دی جب یہاں پر اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے کارکنان نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ کے رکن عبدالرحمان اغنیمات، جمال الھور اور ابراہیم اغنیمات اسی قصبے سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے تل ابیب میں ‘ابرود‘ ہوٹل میں سنہ 1997ء میں ایک مزاحمتی کارروائی کے دوران کئی صہیونیوں کو ہلاک کردیا تھا۔
سنہ 2016ء میں القسام کمانڈر محمد الفقیہ نے صوریف کو محفوظ ٹھکانا بنایا۔ وہ کئی ماہ تک صہیونی فوج کے تعاقب کا شکار رہے۔ ان پر عتنائیل یہودی کالونی میں ایک یہودی ربی اور اس کی بیوی کو قتل کرنے کا الزام عاید کیا گیا تھا۔ صہیونی فوج نے ایک چھاپے کے دوران محمد الفقیہ کو اسی قصبے میں گولیاں مار کر شہید کیا تھا۔
تہذیب وتمدن کی ترقی
صوریف کی پہچان صرف مزاحمتی شخصیات اور مجاھدین ہی نہیں بلکہ یہ تاریخی اورتہذیبی مرکز ہے۔یہاں پرکئی پرانی اور نئی مساجد ماضی اور حال کو آپس میں ملاتی ہیں۔ فلاحی اداروں کے مراکز، اسکول، ڈسپنسریاں اس علاقے کی پہچان ہیں۔ فلسطینی رکن اسمبلی اور صوریف کے سابق میئر ڈاکٹر سمیر القاضی کا کہنا ہے کہ صوریف جدید و قدیم تہذیب کا سنگم ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ صوریف قصبے میں کئی اہم سرکاری دفاتر ہیں اور اسے مذہبی جماعتوں کے حامیوں کا قصبہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس قصبے سے فلسطینی پارلیمنٹ کےدو ارکان بھی منتخب ہوچکے ہیں۔