پنج شنبه 01/می/2025

اسرائیل غاصب ریاست ہے تسلیم نہیں کریں گے: خالد مشعل

بدھ 3-مئی-2017

اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے سیاسی شعبے کے سربراہ خالد مشعل نے کہا ہے کہ حماس کی نئی پالیسی جماعت کے اعلانیہ تزویراتی پروگرام سے ہم آہنگ ہے۔ان کاکہنا ہے کہ اسرائیل ایک غاصب اور قابض ریاست ہے جسے کسی صورت میں تسلیم نہیں کریں گے۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق اپنے ایک انٹرویو میں خالد مشعل نے کہا کہن کی جماعت نے تحریک فتح سمیت تمام جماعتوں سے شراکت کی تجویز پیش کی ہے کیونکہ قومی سیاسی شراکت کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ انہوں نےکہا کہ مصر کے ساتھ تعلقات کی بہتری اور بحران کے خاتمے کے لیے چار اہم نکات متعین کیے گئے ہیں اوران نکات کی روشنی میں کام کیا جا رہا ہے۔

حماس کے نئے سیاسی منشور پر بات کرتے ہوئے خالد مشعل نے کہا کہ ’حماس نے ہمیشہ آگے جانے بڑھنے اور بہتری کی طرف سے سوچا ہے۔ حماس نے ہمیشہ منطقی زبان استعمال کی اور کھلے پن کا مظاہرہ کیا ہے۔ حماس قوم کے مسائل کے حل کے لیے ہمیشہ لچک کا مظاہرہ کرتی رہی ہے۔ یہ سب کچھ حماس کی اعلان کردہ تزویراتی حکمت عملی کا حصہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ حماس تحریک فتح کی پالیسی پرعمل پرا نہیں جس نے اپنے بنیادی اصولوں ہی کو پس پشت ڈال دیا۔ پالیسی میں تبدیلی کے جس عمل سے حماس گذر رہی ہے اس میں اصولوں پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔

خالد مشعل نے کہا کہ حماس کی نئی حکمت عملی تزویراتی تبدیلی نہیں۔ نئی پالیسی فطری تبدیلی کا اشارہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ زندہ و بیدار تحریکیں ہمیشہ آگے کی طرف بڑھتی اور اپنے طرز عمل میں جدت لاتی ہیں۔ حماس نے اپنے اصولوں پرقائم رہتے ہوئے ہمیشہ تبدیلی کا آپشن استعمال کیا ہے۔

اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان
خالد مشعل نے اپنے اںٹرویو میں واضح کیا کہ حماس کے نئے ضمنی منشور کی شق 20 میں واضح کیا گیا ہے کہ اسرائیل ایک قابض اور غاصب ریاست ہے جسے تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ اس شق میں واضح کیا گیا ہے کہ سنہ 1967ء کے علاقوں میں فلسطینی ریاست کےقیام کی حمایت کا مطلب نہیں حماس نے تاریخی فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کو تسلیم کرلیا ہے۔ حماس سنہ 2005ء میں قاہرہ، 2006ء میں قومی معاہدہ وفاق اور دیگر تمام معاہدوں میں یہ تسلیم کرچکی ہے کہ وہ سنہ 1967ء کی حدود میں مشروط طور پرعبوری فلسطینی ریاست کےقیام کی حمایت کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا موقف واضح اور دو ٹوک ہے۔ جس میں کوئی ابہام نہیں ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ نئی پالیسی میں اخوان المسلمون سے تعلق کاذکر نہیں کیا گیا تو کیا حماس کے اخوان المسلمون سے علاحدگی کا اشارہ ہے تو خالد مشعل نے کہا کہ ’ہم سنہ 1987ء سےحماس کے پلیٹ فارم سے کام کررہے ہیں۔حماس کا فکری مرجع اخوان المسلمون ہی ہے۔ اخوان کی تعلیم اعتدال اور رواداری پرمبنی ہے۔ حماس کا ہمیشہ یہی موقف رہا ہے تاہم اس کےباوجود حماس ایک خودمختار فلسطینی تنظیم ہے جو کسی کے مطالبے پر قائم نہیں کی گئی۔

مصر کے ساتھ تعلقات
مصر اور حماس کےدرمیان تعلقات کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں خالد مشعل نے کہا کہ حماس نے پوری سنجیدگی کے ساتھ برادر ملک مصر کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوششیں کیں۔ ہم پرامید ہیں کہ مصری سرکار بھی حماس کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے میں کسی تاخیر کامظاہرہ نہیں کرے گی۔ مصر ایک بڑا اور قابل قدر ملک ہے۔ مصر کو عرب ممالک میں قدرو منزلت سے دیکھا جاتا ہے۔ ہماری تاریخ، تہذیب اور مذہب مشترک ہے۔ مصر سے تعلقات حماس کے نئے منشور کا مرہون منت نہیں۔ حماس پہلے بھی مصر سے مفاہمانہ پالیسی کے فروغ میں پیش پیش رہی ہے۔

خالد مشعل نے کہا کہ حماس نے مصر کے ساتھ بحران کے خاتمے کے لیے چار نکاتی پروگرام پیش کیا ہے۔ حماس نے واضح کیا ہے کہ وہ مصر کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتی۔ مصر کی قومی سلامتی کو فلسطین کی قومی سلامتی کا درجہ حاصل ہے۔ حماس مصر کے ساتھ شفاف اور بامقصد بات چیت کے لیے تیار ہے۔

سعودی عرب سے تعلقات کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں مشعل نے کہا کہ حماس  ۔ سعودیہ تعلقات اچھے ہیں تاہم وہ ان میں مزید بہتری کی توقع رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب نہایت اہم ملک ہے اور اہم سعودیہ کے ساتھ تعلقات بہتربنانے کی کوششیں جاری رکھیں گے۔

خالد مشعل نے غزہ کی پٹی پر مسلط کی گئی معاشی پابندیوں کی شدید مذمت کی اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ کے عوام کو صہیونی ریاست کے جبر سے نجات دلائیں۔

مختصر لنک:

کاپی