حال ہی میں فلسطینی تنظیم اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کی نئی سیاسی قیادت کا انتخاب عمل میں لایا گیا۔ حماس کے سیاسی شعبے کی قیادت خالد مشعل کی جگہ اسماعیل ھنیہ کے سپرد کی گئی۔ جبکہ نائب صدور اور سیاسی شعبے کے کئی سابق ارکان اپنی جگہ بدستور برقرار رہے ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق حماس کے سیاسی ڈھانچے کی نئی قیادت میں ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق نائب صدر ہوں گے۔ جب کہ یحییٰ السنوار، صالح العاروی، خلیل الحیہ، محمد نزال، ماہر عبید، عزت الرشق اور فتحی حماد کو جماعت کے سیاسی شعبے کے رکن مقرر کیا گیا۔
ذیل میں ان رہ نماؤں کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے۔
موسیٰ ابو مرزوق
ڈاکٹرموسیٰ محمد محمد ابو مرزوق سنہ 1951ء کو غزہ کے جنوبی علاقے رفح میں رفح پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے۔ سنہ 1987ء میں حماس کے قیام میں ابو مرزوق کا اہم کردار ہے اور ان کا شمار جماعت کے بانی ارکان میں ہوتا ہے۔ وہ سنہ 1989ء میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں گرفتاری اور رہائی کے بعد جماعت کی اہم ذمہ داریوں پر فائز ہوتے رہے ہیں۔
موسیٰ ابو مرزوق نے تمام ابتدائی تعلیمی مراحل غزہ کےاسکولوں اور کالجوں میں طے کیے۔ سنہ 1975ء میں مصر کی جامعہ الحلوان سے میکینیکل انجینیرنگ اور انجینیرنگ پروڈکشن کی ڈگریاں حاصل کیں۔ سنہ 1976ء سے 1981ء تک متحدہ عرب امارات میں ایلومینیم فیکٹری میں ڈائریکٹر کے طور پر ملازمت کی اور کچھ عرصہ ابو ظہبی میں ابوظہبی نیشنل پٹرول کمپنی میں بھی خدمات انجام دیں۔
سنہ 1992ء کو حماس کے سیاسی شعبے کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ سنہ 1995ء میں انہیں امریکا میں بغیر کسی الزام کے حراست میں لیا گیا اور سنہ1997ء میں امریکی جیل سے رہا ہوئے۔ اس کے بعد انہیں جماعت کے سیاسی شعبے کا نائب صدر مقرر کیا جاتا رہا ہے۔
ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق نے امریکا میں کولوراڈو ریاست کے فورٹ کولنز شہر میں اسلامی مرکز کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے امریکا میں کئی اسلامی اور فلسطینی مراکز قائم کیے جن میں فلسطینی قضیے کو اجاگر کرنے میں سرگرم تھینک ٹینک بھی شامل ہیں۔
سنہ 2009 ء میں فلسطینی سیاسی دھڑوں کے درمیان ہونےوالی مفاہمتی کوششوں کے لیے قاہرہ میں حماس کے مذاکرات کار کے طور خدمات انجام دیں۔ اس کے علاوہ سنہ 2014ء میں فلسطین میں قومی حکومت کے لیے قاہرہ میں ہونے والے مذاکرات میں بھی حماس کی طرف سے نیابت کی۔
یحییٰ السنوار
یحییٰ السنوار کو حال ہی میں غزہ کی پٹی میں حماس کا صدر منتخب کیا گیا ہے۔ السنوار کئی بار اسرائیلی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہوئے اور انہیں چار بار عمر قید کی سزا بھی سنائی گئی۔ تاہم سنہ 2011ء میں حماس اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کے تبادلے’وفا احرار‘ کے تحت ان کی رہائی عمل میں لائی گئی۔
یحییٰ السنوار سنہ 1962ء کو غزہ کے علاقے خان یونس میں ایک پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے۔ ان کے خاندان کا آبائی تعلق جنوبی فلسطین کا عسقلان شہر ہے۔ السنوار نے ابتدائی تعلیم غزہ ہی سے حاصل کی۔ غزہ کی اسلامی یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں گریجوایشن کی۔ سنہ 1985ء میں انہیں دوسری بار حراست میں لیا گیا اور آٹھ ماہ قید کے بعد رہائی ملی۔ انہوں نے حماس کے سیکیورٹی ڈھانچے’مجد‘ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا اور اس ادارے میں نمایاں خدمات بھی انجام دیں۔
السنوار کی تیسری گرفتاری 1988ء میں عمل میں لائی گئی اور ان پر مقدمہ چلایا گیا جس میں انہیں چار بار عمر قید کی سزا کا حکم دیا گیا۔ السنوار حماس کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈ کی تشکیل اور اسے موثر بنانے کے لیے بھی قابل قدر خدمات انجام دے چکے ہیں۔
صالح العاروری
صالح العاروری حماس کے سیاسی شعبے کے سینیر رکن ہیں۔ انہوں نے سنہ 1991ء اور 1992ء میں غرب اردن میں حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کیا۔ انہوں نے 15 سال تک اسرائیلی جیلوں میں قید کاٹی اور وفا احرار معاہدے کے تحت رہائی پائی۔
العاروری غرب اردن کے وسطی شہر رام اللہ میں عارورہ قصبے میں سنہ 1966ء کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی اور ثانوی تعلیم فلسطین سے حاصل کی اور الخلیل یونیورسٹی سے اسلامی قانون میں گریجوایشن کی۔
غرب اردن میں فدائی فلسطینی نوجوانوں کی تیاری اور حماس کے ساتھ تعلق کے الزامات کے تحت وہ بار بار گرفتار کیے جاتے رہے۔ متعدد مرتبہ ان پر قاتلانہ حملے بھی کیے گئے۔ بیرون ملک نقل مکانی کے بعد بھی اسرائیل انہیں مختلف ذرائع سے واپس لانے اور گرفتار کرنے کی کوششیں کرتا رہا ہے۔
خلیل الحیہ
خلیل الحیہ فلسطین کے ایک نمایاں سیاسی رہ نما ہیں۔ الحیہ فلسطینی پارلیمنٹ کے رکن ہیں اور حماس کے پارلیمانی بلاک کے سربراہ ہیں۔ الحیہ کو متعدد بار جماعت کے سیاسی شعبے کا رکن منتخب کیا جاتا رہا ہے۔ اسرائیلی فوج نے انہیں شہید کرنے کے لیے کئی بار ان پر قاتلانہ حملے کیے۔ ان حملوں میں الحیہ کےخاندان کے سات افراد شہید ہوچکے ہیں۔
خلیل الحیہ پانچ نومبر 1960ء کو غزہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم حطین اسکول سے حاصل کی۔ مڈ ھاشم بن عبد مناف اسکول سے کیا اور ثانوی تعلیم یافا اسکول میں مکمل کی۔ انہوں نے غزہ کی اسلامی یونیورسٹی سے حدیث شریف میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کررکھی ہے۔
سنہ 2006ء میں فلسطین میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں انہوں نے حماس کے پارلیمانی بلاک اصلاح وتبدیلی کی ٹکٹ پر حصہ لیا اور پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے۔
سنہ 90ء کے عشرے میں وہ متعدد بار حراست میں لیے گئے۔ کئی بار انہیں قاتلانہ حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ سنہ 2007ء میں انہیں شہید کرنے کے لیے اسرائیلی جنگی طیاروں نے ان کی رہائش گاہ پر بمباری کی جس میں ان کے خاندان کے سات افراد شہید ہوگئے۔ سنہ 2012ء اور 2014ء کی اسرائیلی جنگوں کے دوران جنگ بندی میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔
محمد نزال
حماس کے سیاسی شعبے کے رکن محمد نزال 18 فروری 1963ء کو اردن کے صدر مقام عمان میں پیدا ہوئے مگر ان کا آبائی تعلق غرب اردن کا قلیقلیہ شہر سے ہے۔ ان کا خاندان سنہ 1948ء کو فلسطین سےھجرت کرکے اردن میں آباد ہوگیا تھا۔
محمد نزال نے سنہ 1964ء کو کویت سے تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد پاکستان کے شہر کراچی میں جامعہ کراچی سے کیمسٹری میں بی ایس سی اور سنہ 1987ء میں ایم ایس سی کیا۔
لڑکپن ہی میں انہوں نے اسلامی تحریکوں میں دلچسپی لینا شروع کی۔ پاکستان کی طلباء تنظیموں میں شامل رہے اور پاکستان میں مسلم اسٹوڈنٹ الائنس کے سیکرٹری جنرل بھی رہے۔ سنہ 1989ء میں انہوں نے اپنی تمام خدمات حماس کے لیے مختص کردیں اور سنہ1992ء کو اردن میں حماس کے مندوب مقرر ہوئے۔
ماہرعبید
ماہر عبید حماس کے سیاسی شعبے کے رکن ہیں۔ وہ سنہ 2010ء سے جماعت کے سیاسی شعبے کا حصہ ہیں۔ ان کی پیدائش 1958ء میں اردن میں ہوئی مگر ان کی پرورش غرب اردن کے جنوبی شہر الخلیل میں ہوئی۔ سنہ 1981ء میں انہوں نے اردن کے لا کالج سے تعلیم مکمل کی۔
انہوں نے بیت المقدس میں بھی قیام کیا اور القدس کے اسکولوں میں درس و تدریس کے فرائض انجام دئے۔ سنہ 1981ء سے 2000ء تک انہیں فلسطینی اوقاف میں بھی کام کرنے کا موقع ملا۔ وہ پناہ گزین کیمپوں میں لڑکیوں اور لڑکوں کے اسکولوں میں بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔
صہیونی فوج نے سنہ1989ء میں انہیں حراست میں لیا اور سنہ 1992ء کے آخر میں حماس اور اسلامی جہاد کے 415 رہ نماؤں سمیت لبنان بے دخل کردیا گیا۔
ماہر عبیداسرائیلی جیل میں اسیران کی مجلس شوریٰ کے بھی رکن رہے۔ جزیرہ النقب جیل اور صحرائی جیل میں حماس کے اسیران کی انتظامی امور کی بھی نگرانی کی۔
عزت الرشق
عزت الرشق کا شمار بھی حماس کے بانی ارکان میں ہوتا ہے۔ وہ جماعت کی تاسیس سے اب تک مسلسل جماعت کےسیاسی شعبے کے رکن ہیں۔ الرشق سنہ 1960ء کو غرب اردن کے جنوبی شہر الخلیل میں پیدا ہوئے۔ سنہ 1967ء میں ان کا خاندان کویت ھجرت کرگیا اور وہ وہاں 1990ء میں خلیج جنگ تک مقیم رہے۔
الرشق نے ابتدائی تعلیم کویت سے حاصل کی۔ سنہ 1983ء میں جامعہ کویت سے پولیٹیکل واکنامکس کی ڈگریاں حاصل کیں۔
سنہ 1996ء کو انہیں اردن میں حماس کے تعلق کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ سنہ 1999ء میں دوبارہ ان کی گرفتاری عمل میں آئی۔ اردن نے حماس رہ نماؤں خالد مشعل، ابراہیم غوشہ، سامی خاطر اور عزت الرشق کو قطر بے دخل کردیا۔
عزت الرشق کو حماس کی کئی اہم ذمہ داریاں سونپی جاتی رہی ہیں۔ وہ حماس کے شعبہ اطلاعات اور الیکشن سیل کے بھی سربراہ رہے ہیں۔ انہوں نے فلسطینی تنظیموں کے درمیان قومی مفاہمت کے لیے اہم کردار ادا کیا اور سنہ 2014ء کو غزہ پر مسلط کی گئی جنگ کے دوران سیز فائر کے لیے قائم کردہ متحدہ فلسطینی وفد میں بھی شامل رہے۔
فتحی حماد
فتحی حماد حماس کے سیاسی شعبے کے نمایاں رکن ہیں۔ انہیں سنہ 2006ء میں حماس کی ٹکٹ پر فلسطینی قانون ساز اسمبلی کا رکن منتخب کیا گیا۔ سنہ 2009ء میں حماس کے وزیر داخلہ سعید صیام کی شہادت کے بعد انہیں غزہ میں وزیر داخلہ بھی مقرر کیا گیا۔
فتحی حماد نے غزہ کی پٹی میں اسلامی یونیورسٹی سے تاریخ کےمضمون میں ایم اے کیا۔ اس کےعلاوہ رام اللہ میں قلندیہ انسٹیٹیوٹ سے انجینینرنگ میں بھی ڈپلومہ کررکھا ہے۔
فتحی حماد نے فلسطین میں ’واعد آرگنائزیشن برائےاسیران‘ کی بنیاد رکھی اور شمالی غزہ میں دارالقرآن والسنہ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ وہ الاقصیٰ میڈیا نیٹ ورک کے بھی بانی ہیں۔
سنہ 1988ء کو اسرائیل نے ان کا مکان مسمار کیا اور انہیں چھ سال تک جیل میں ڈالے رکھا۔ وہ کئی بار فلسطینی اتھارٹی کی جیلوں میں بھی قید رہ چکے ہیں۔ سنہ 1996ء میں فلسطینی جنرل انٹیلی جنس فتحی حماد کوڈیڑھ سال اور سنہ 2000ء میں تین ماہ تک پابند سلاسل رکھا۔