حال ہی میں امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب میں منعقدہ اسلامی، عرب سربراہ کانفرنس کے دوران جہاں صہیونی ریاست کی بے لاگ حمایت کی وہیں امریکا کی اس گھسی پٹی پرانی پالیسی کو دہراتے ہوئے ایک بار پھر اسلامی تحریک مزاحمت’حماس‘ پر دہشت گردی کا بے سروپا الزام عاید کیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے حماس پر دہشت گردی کا الزام کوئی نئی بات نہیں مگر جب فلسطینی تحریک آزادی کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے تواس کا صاف مطلب فلسطینیں کے حق خود ارادیت کے لیے جاری مزاحمت کو جرم قرار دینے کی مذموم کوشش کرنا ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس پر دہشت گردی کا الزام اس عرب ملک کی سرزمین پر عاید کیا جو فلسطینیوں کے جائز اور مسلمہ حقوق بالخصوص حق خود ارادیت کا پرزور حامی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کے دارالحکومت میں پچپن مسلمان اور عرب ریاستوں کے سراہان کے سامنے فلسطینی قوم کی تحریک آزادی کا مذاق اڑایا۔حماس کو القاعدہ اور داعش جیسے گروپوں کی صف میں شامل کرکے یہ تاثر دیا گیا ہے کہ عالم اسلام اور عرب ممالک جہاں داعش اور القاعدہ کے خلاف سرگرم عمل رہیں گے وہیں ان کا ٹارگٹ حماس بھی ہوگی۔ حالانکہ حماس صرف اور صرف فلسطین کی آزادی کے لیے جدو جہد کررہی ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس کو ایک بار دہشت گرد گروپوں کی فہرست میں شامل کرکے حماس کو تنہا اور فلسطینی تحریک آزادی کو بے معنی کرنے کی کوشش کی ہے۔
تاہم بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی میزبانی میں منعقد ہونے والی امریکا، اسلامی اور عرب سربراہ کانفرنس کو محض اقتصادی مقاصد کا اجتماع قرار دے رہے ہیں جس میں عرب اقوام کے سیاسی تنازعات بالخصوص مظلوم فلسطینی قوم کی حمایت میں کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں کی گئی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں ہفتے ریاض میں منعقدہ اسلامی سربراہی کانفرنس سے خطاب میں حماس کو ’دہشت گرد‘ تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا۔ فلسطینی قوم کی جانب سے صدر ٹرمپ کے الفاظ اور موقف کو یکسر مسترد کردیا گیا۔
حماس نے بھی صدر ٹرمپ کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ امریکی صدر اور انتظامیہ فلسطین کی تحریک آزادی کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑ کراسے بدنام کرنے کی مذموم کوشش نہ کریں۔ حماس اپنے مقبوضہ وطن کی دشمن سے آزادی کے لیے جدو جہد کررہی ہے۔ فلسطین کی دیگر سیاسی اور مزاحمتی تنظیموں نے بھی حماس کے بارے میں ٹرمپ کے بیان کو مسترد کردیا۔
حماس اور مزاحمت
فلسطینی تجزیہ نگار راید نعیرات نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کے حماس بارے موقف پر کہا کہ امریکی صدر نے مسلم دنیا کے 55 سربراہان مملکت کو مخاطب کیا۔ ان میں سے بعض حماس کے خلاف، بعض حماس سے متفق اور بعض کو جزوی طور پر اتفاق ہے۔
اس ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ مستقبل میں کیا ہوگا؟۔ مسلمان اور عرب ممالک ٹرمپ کے بیان کے بعد حماس کے بارے میں کیا پالیسی اپنائیں گے۔ کیا یہ ممالک حماس ، فلسطین اور تحریک آزادی فلسطین کے حوالے سے مضبوط موقف اختیار کریں گے یا ان کا طرز عمل مبہم اور غیر واضح ہوگا۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ ریاض میں ہونے والی سربراہ کانفرنس میں ترکی موجود نہیں تھا۔ خطے میں کسی بھی قسم کی پالیسی کے لیے ترکی کو اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔
دوسرے فلسطینی تجزیہ نگاراحمد رفیق عوض کا کہنا ہے کہ حماس کو دہشت گردی سے جوڑنا حقائق سے چشم پوشی اختیار کرنے کی دیدہ و دانستہ کوشش اور اسرائیل کو خوش کرنا ہے۔ حالانکہ امریکی بھی بہ خوبی جانتے ہیں کہ حماس کا داعش کے ساتھ مواز نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی حماس کا پروگرام لبنانی شیعہ ملیشیا حزب اللہ کے پروگرام سے کوئی ہم آہنگی رکھتا ہے۔
ٹرمپ نے عرب ممالک کی قیادت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تمہارے لیے مسئلہ اسرائیل نہیں بلکہ ایران ہے۔ شرکاء میں سے کسی نے صدر ٹرمپ کے اس موقف کی تائید نہیں کی دنیا میں جاری فساد کے پیچھے مذاہب کا کردار ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل اگر یہودی ریاست میں بدلنا چاہتا ہے اور مسجد اقصیٰ پر دھاوے بول رہا ہے تو یہ کوئی مسئلہ نہیں۔
سیاسی تجزیہ نگار مصطفیٰ الصواف نے کہا کہ ٹرمپ نہ صرف اسرائیل کے کھلے طرف دار ہیں بلکہ مسئلہ فلسطین کے باب میں امریکی صدر وہی موقف رکھتے ہیں جو اسرائیل کا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی اب تک کی تمام تقاریر کو اٹھا کر دیکھ لیا جائے ان میں کہیں بھی فلسطینیوں کے بنیادی حقوق کو ان کے ہاں ترجیح حاصل نہیں۔ امریکا عرب ممالک کو ایران اور دہشت گردی کا خوف دلا کر انہیں اپنے معاشی اور اقتصادی مقاصد کے لیے استعمال کررہا ہے۔
دہشت گردی کانفرنس
ریاض میں ہونے والی اسلامی ، عرب سربراہ کانفرنس کے دوران مصر اور سعودی عرب نے تنازع فلسطین کے حوالے سے عرب امن فارمولے کا حوالہ دے کر اپنی عزت بچانے کی بھرپور کوشش کی مگر دوسری جانب صدر ٹرمپ نے فلسطین پر جانائز اسرائیلی قبضے کا ذکر تک نہیں کیا۔ حالانکہ ٹرمپ حماس پر دہشت گردی کے الزام میں اسرائیل کا ہم خیال و ہمنوا ہے۔
آج سے 21 برس قبل سنہ 1996ء میں امریکا اور اس کے دوست ممالک نے مصر کے پرفضاء مقام شرم الشیخٰ میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اس کانفرنس کا مقصد ناکامی سے دوچار ہونے والے نام نہاد ‘اوسلو‘ معاہدے کو نئی آکسیجن فراہم کرنا اورانسداد دہشت گردی نعرے کے پیچھے چھپ کر مسئلہ فلسطین کا تصفیہ کرنا تھا۔
فلسطینی تجزیہ نگار راید نعیرات کا کہنا ہے کہ شرم الشیخ کانفرنس میں دو آراء سامنے آئیں۔ حماس کے موقف کو فلسطین اسرائیل کے قبضے کے خلاف آئینی مزاحمت کے طور پر سامنے لانے اور اس کے لیے سیاسی پروگرام کو بچانے کی کوشش کی گئی جب کہ امریکیوں نے نیتن یاھو کے اقتدار تک پہنچنے سے قبل اوسلو معاہدے کو بچانے کی کوشش کی۔ آج جب ٹرمپ حماس کو دہشت گرد گروپ قرار دے رہے ہیں ان کے سامنے بھی تنازع فلسطین کے حل کا سیاسی پروگرام نہیں ہے۔
شرم الشیخ کانفرنس میں اسرائیل نے فلسطینیوں کے فدائی حملوں کا شکوہ کیا۔ یہ فدائی حملے صہیونی ریاست کے جبرو تشدد کا رد عمل تھے۔ آج دیکھا جائے تو سنہ 2017ء میں غزہ کے دو ملین فلسطینی مسلمان صہیونی ریاست کے مسلط کردہ معاشی ناکہ بندی کے قہر کا سامنا کررہے ہیں اور یہ عذاب ان پر مسلسل دس سال سے مسلط ہے۔ فلسطینی عوام پر غربت مسلط کی جا رہی ہے۔ دوسری طرف اسرائیل بیت المقدس اور مقبوضہ مغربی کنارے میں دھڑا دھڑ یہودی توسیع پسندی کے منصوبوں پر عمل پیرا ہے۔ یہودی آباد کاری کے طوفان نے نام نہاد سیاسی عمل بھی کھٹائی میں ڈال رکھا ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار عوض کا کہنا ہے کہ سنہ نوے کی دھائی میں شرم الشیخ عالمی انسداد دہشت گردی کانفرنس مختلف ماحول اور عالمی حالات میں ہوئی تھی۔اس کانفرنس میں عرب ممالک میں بھی اختلافات سامنے آئے تھے۔ مصر کی طرف سے ایران کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے پر اصرار کیا گیا تھا۔ کانفرنس کے یک نکاتی ایجنڈے میں دہشت گردی کا مسئلہ شامل کیا گیا اور فلسطینی تحریک آزادی کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑنے کی ناکام کوشش کی گئی تھی۔ سنہ 1996ء میں ہونے والی سربراہ کانفرنس میں بھی حماس پر دہشت گردی کی پھبتی کسی گئی تھی۔ آج اگر ٹرمپ پرانی بولی بول رہے ہیں تو کوئی حیرت کی بات ہرگز نہیں ہونی چاہیے۔ ٹرمپ تو صرف مالیاتی سودے کرتے اور امریکی اسپیشل سیکٹر کو مصروف رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تجزیہ نگار الصواف کا کہنا ہے کہ سنہ 1996ء اور آج کی حماس میں فرق ضرور ہے۔ اگرچہ حماس آج بھی امریکیوں کی نظر میں دہشت گرد ہے مگر اس وقت حماس اس وقت ایک مضبوط قومی سیاسی ، عسکری اور قومی قوت بن چکی ہے۔ اب حماس کا پوری دنیا کے لیے واضح سیاسی پیغام ہے۔ حال ہی میں حماس نے اپنی نئی پالیسی دستاویز جاری کرکے ایک بار پھر دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے۔ دنیا یہ تسلیم کرنے لگی ہے کہ دہشت گردی کے الزامات اور امریکی ‘بک بک‘ کے باجود حماس کو نظر انداز کرکے قضیہ فلسطین کا کوئی حل نہیں نکالا جاسکتا۔