مقبوضہ بیت المقدس میں جہاں ایک طرف یہودی آباد کاری کا طوفان ہرطرف تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے وہیں صہیونی ریاست ایک سوچے سمجھے پلان کے تحت فلسطینی شہریوں کی کالونیوں کو متنازع قرار دے کرمقامی فلسطینی آبادی کو ھجرت پرمجبورکرنے کے لیے دن رات سرگرم عمل ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق بیت المقدس میں یہودی آبادی کو غلبہ دینے اور فلسطینی آبادی کو اقلیت میں بدلنے کے لیے صہیونی ریاست تمام ناجائز حربے استعمال کررہی ہے۔ ان حربوں میں فلسطینی آبادیوں کو تمام بنیادی مراعات، شہری سہولیات اور انفرااسٹرکچر سے محروم کرنا، ان کے گھروں اور دوسری املاک کو غیرقانونی قرار دے کرانہیں مسمار کرنا، فلسطینی آبادی پر معاشی پابندیاں اور غربت مسلط کرنا جیسے جرائم شامل ہیں۔ ان سب جرائم کا مقصد مقامی فلسطینی آبادی کو تنگ آکر شہرچھوڑنے پرمجبور کرنا ہے۔
صہیونی ریاست کی امتیازی پالیسیوں کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ حال ہی میں القدس امور کے اسرائیلی وزیر اور وزیر ماحولیات زئیو الکین نے کہا کہ وہ بیت المقدس کی ان کالونیوں میں صحت، صفائی، ماحولیاتی آلودگی سے بچاؤ اور دیگر ترقیاتی منصوبوں پر کام شروع کرے گی جہاں یہودی بھی اکثریت میں آباد ہیں۔ جن کالونیوں میں فلسطینیوں کی اکثریت ہے، ان کا اسرائیل کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں۔ انہیں مذکورہ تمام مراعات میں سے کوئی سہولت فراہم نہیں کی جاسکتی۔
اسرائیلی اخبار’ہارٹز‘ نے منگل کے روز اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ القدس امور کے وزیر نے مشرقی بیت المقدس کی فلسطینی اکثریتی کالونیوں کے سوا باقی کالونیوں میں صفائی اور ماحولیاتی تحفظ کے مختلف منصوبوں کا اعلان کیا ہے تاہم ان میں فلسطینی اکثریتی کالونیاں شامل نہیں ہیں۔
اخباری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی پارلیمنٹ کی داخلہ کمیٹی کی طرف سے دیوار فاصل کے پیچھے فلسطینی آبادیوں میں صحت اور دیگر مسائل کے بحران کا اعتراف کیا ہے مگر اس کے باوجود صہیونی حکومت ان کالونیوں میں ترقیاتی کاموں پرتوجہ دینے سے گریز کی پالیسی پرعمل پیرا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دیوار کے پیچھے بیت المقدس کے کل فلسطینیوں کا ایک تہائی یعنی ایک لاکھ چالیس ہزار فلسطینی آباد ہیں۔
گذشتہ اتوار کے روز اسرائیلی کابینہ کے اجلاس کے دوران بیت المقدس میں فلسطینی کالونیوں میں ترقیاتی منصوبوں میں کمی لانے کا اعلان کیا گیا تھا۔ ان پسماندہ کالونیوں میں کفر عقب اور شعفاط پناہ گزین کیمپ خاص طور پرشامل ہیں جن میں ایک لاکھ چالیس ہزار فلسطینی آباد ہیں۔
فلسطینی واٹر سپلائی کمپنی کا کہنا ہے کہ اسرائیلی کمپنی ’میکوروٹ‘ دیوار کی دوسری طرف فلسطینی آبادیوں کو پانی کی فراہمی یقینی نہیں بناتی۔ صہیونی بلدیہ کی طرف سے فلسطینی علاقوں پانی کی سپلائی کے لیے نئی پائپ لائن بچھانے کی اجازت بھی نہیں دی جا رہی ہے۔
کفر عقب بلدیہ کے رکن منیر ابو اشرف نے بتایا کہ بعض اوقات شہریوں کو مسلسل پانچ پانچ دن پانی معطل رہتا ہے۔ شہریوں نے مجبور ہو کر گھروں کی چھتوں پر 1500 گیلن کی ٹینکیاں رکھی ہوئی ہیں اور وہ انہیں بھر کررکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ کفر عقب میں پانی کی شدید قلت ایک نئے انسامی المیے کا باعث بن سکتی ہے۔