فلسطینی وزارت اطلاعات کی جانب سے عالمی یوم تحفظ ’اطفال‘ کے موقع پر جاری کردہ ایک رپورٹ میں اسرائیلی فوج کی ریاستی دہشت گردی سے متاثر ہونے والے فلسطینی بچوں کی تفصیلات جاری کی گئی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 28 ستمبر 2000ء کےبعد سے اب تک ہزارون فلسطینی بچے شہید، زخمی اور جیلوں میں ڈالے جا چکے ہیں۔
شہید، زخمی اور اسیران
فلسطینی وزارت اطلاعات کی رپورٹ کے مطابق فلسطینی شہریوں کے خلاف صہیونی ریاست کا وحشیانہ تشدد بدستور جاری ہے۔ تحریک انتفاضہ الاقصیٰ کے بعد سے 30 اپریل ز2017ء تک صہیونی فوج کی ریاستی دہشت گردی میں 3000 فلسطینی بچے شہید، 13 ہزار زخمی اور 12 ہزار کو حراست میں لیا گیا۔ ان میں سے 300 بچے بدستور پابند سلاسل ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حراست میں لیے گئے 95 فی صد بچوں کو حراستی مراکز میں وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
وزارت اطلاعات کے مطابق صہیونی فوج فلسطینی شہروں سے سالانہ 700 بچوں کو حراست میں لیتی اور انہیں تشدد کا نشانہ بناتی رہی ہے۔ اکتوبر 2015ء سے جنوری 2016ء تک صہیونی فوج اورپولیس نے 2000 فلسطینی بچوں کو نام نہاد الزمات کے تحت حراست میں لیا اور انہیں اذیتیں دی گئیں۔ اس وقت بھی اسرائیلی زندانوں میں 300 بچے پابند سلاسل ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صہیونی ریاست کی انتقامی پالیسیوں کے نتیجے میں بچوں میں غربت کی شرح میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ غزہ کی پٹی کے بچے خاص طورپر متاثر ہوئے ہیں۔غربت کے باعث کم عمر افراد اور بچوں کو بھی تعلیم چھور کر کام کاج پر مجبور ہونا پڑا۔ 2013ء میں سرکاری محکمہ شماریات کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ 10 سے 17 سال کی عمر کے 4.1 فی صد بچے غربت کے باعچ کام کاج پرمجبور ہیں۔
مجموعی طور پر 18 سال سے کم عمر کے وہ بچے جو محنت مزدوری پرمجبور ہوئے ہیں کی تعداد ایک لاکھ دو ہزار تک جا پہنچی ہے جب کہ 2011ء میں یہ تعداد 6500 ہزار تھی۔