مسئلہ فلسطین اور اس میں موجود مقدسات بلا تفریق پورے عالم اسلام کے لیے یکساں اہمیت اور حساسیت کے حامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم دنیا میں پائے جانے والے نظریاتی اورمسلکی اختلافات کے باوجود فلسطین پوری مسلم دنیا کے دل و دماغ میں ایک ہی جیسا مقام رکھتا ہے۔ مگر لگتا ہے کہ فلسطینیوں کی مظلومیت کی باتیں ماضی کا قصہ ہوئی اور اس میں موجود مقدسات کا دفاع اب عالم اسلام کی ترجیحات میں نہیں رہا ہے۔
اس کا سب سے بڑا ثبوت مظلوم فلسطینیوں کے سب سے بڑے بہی خواہ اور مشکل میں کام آنے والے ملک قطرکا اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کی جانب سے جاری محاصرہ بتا رہا ہے۔
آنے والے مورخین لکھیں گے کہ اکسیویں صدی میں کچھ عرب ملکوں نے اپنے ایک پڑوسی عرب ملک کا محض اس لیے محاصرہ اور گھیراؤ کیا کہ وہ ایک ایسی تنظیم کی معاونت کررہا تھا جو صہیونی شرانگیز پروگرام کے مقابلے میں پوری عرب دنیا کا دفاع کررہی تھی۔
اس طویل نیند سے بیداری کے بعد جب اچانک سعودی وزیرخارجہ عادل الجبیر کو یہ کہتے پایا گیا کہ ’بہت ہوچکا اب قطر کو حماس جیسی تنظیموں کی معاونت بند کرنا ہوگی‘ تو فلسطینیوں سے ہمدردی رکھنے والوں کے دلوں میں ایک خنجر پیوست ہوگیا۔ مگر حماس کے خلاف اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کرنے والوں میں عادل الجبیرتنہا نہیں۔ ان سے قبل متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت برائے خارجہ امور انور قرقاش بھی قطر میں حماس کی موجودگی کو خطے کی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دے چکے ہیں۔
مذکورہ وزراء کرام کے متنازع بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا ہدف قطر یا حماس کم بلکہ مسئلہ فلسطین کی حمایت روکنا زیادہ اہم ہے۔ کبھی وہ قطر کےسامنے دس شرایط پیش کرتے ہیں جن میں حماس سمیت فلسطینی تنظیموں کی حمایت سے دست کش ہونے کامطالبہ کیا جاتا ہے۔ دراصل یہ ممالک ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حماس جلا وطن قیادت کو قطر سےبے دخل کرنا اور غزہ کی تعمیر نو روکنا چاہتے ہیں۔
قطر ہی کیوں ہدف؟
تجزیہ نگار وائل ابو ھلال کاکہنا ہے کہ قطر کا محاصرہ دراصل تین عرب ملکوں میں اٹھنے والی بیداری کی تحریکوں کے بعد’جیو اسٹریٹیجی‘ کے سیاق میں کیا گیا ہے۔ قطر کا محاصرہ کرنے والے یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں گویا قطر عرب بہاریہ کے پیچھے ہے۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ قطر کا بائیکاٹ کرنے والے عرب ملکوں میں اٹھنے والی انقلابی تحریک کے خلاف بلکہ انقلابات کے خلاف لڑنے والے ہیں۔ مگر قطر کی پالیسی ان عرب ملکوں کی پالیسیوں سے مختلف ہے۔ قطر تبدیلی کی لہروں سے گذرنے والے ممالک میں تبدیلی کے علمبرداروں کے ساتھ کھڑا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ قطر نے نہ صرف عرب ملکوں میں اٹھنے والی عرب بہاریہ کی حمایت کی بلکہ اسلام پسند قوتوں کی دامے درمے سخنے مدد بھی کی جبکہ اس کے مخالف موقف رکھنے والے ممالک کو یہ برداشت نہیں اور وہ قطر کی عرب بہاریہ کے حجم کو بڑھا چڑھا کر پیش کررہے ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے ابو ھلال کا کہنا تھا کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ عرب ۔ امریکا تعلقات کے فروغ اور صہیونی ریاست کو کھلی چھوٹ دینے کے لیے قضیہ فلسطین کو قربانی کا بکرا بنایا گیا۔
اس کا اظہار قطر کا بائیکاٹ کرنے والے ممالک کے رویے سےہوتا ہے۔ یہ ممالک امریکا کےساتھ اپنی دوستی کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے لیے قطر کا محاصرہ کرتے اور فلسطینیوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی پالیسی اختیار کرتے ہیں۔
مخالف سمت میں چلنے والے عرب ملکوں کے ہاں قطر کا ایک جرم حماس اور اخوان کی قیادت کو اپنی سرزمین میں پناہ دینا اور ان سے نفرت اور دشمنی کے بجائے محبت واحترام کا مقام دینا ہے۔ مخالفین حماس کو اخوان کی توسیع پسندانہ شکل قرار دے کر اس کے خلاف سرگرم عمل ہیں۔ انہوں نے مصرکو بھی حماس کے گرد گھیرا تنگ کرنے میں لگا دیا ہے۔
فلسطینی سیاسی تجزیہ نگار علی البغدادی کا کہنا ہے کہ قطرکے بائیکاٹ کے اسباب و محرکات میں حماس کی قیادت کو پناہ دینا بھی ہے۔ سعودی عرب اور قطر کے درمیان پہلے بھی حماس کی قیادت کو پناہ دینے پر اختلافات سامنے آچکے ہیں۔
صہیونی ریاست کی ترجمانی
بعض عرب ممالک کے نزدیک صہیونی دشمن کے خلاف مسلح مزاحمت کی بات کرنا دہشت گردی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ حماس کو فلسطینی قوم کے آئینی حقوق کے لیے جد و جہد کرنے والی تنظیم کے طور پرماننےکے بجائے اس کا تعلق ’دہشت گردی‘ کے ساتھ جوڑنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ یوں قطر کو یہ سزا دی جا رہی ہے کہ وہ ایک ایسی تنظیم یا تنظیموں کی مدد کررہا ہے جو بہ قول ان کے دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔
ایسی ہی بات صہیونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو بھی کرچکے ہیں کہ عرب ممالک اس بات پر قانع اور قائل ہیں کہ ان کا دشمن اسرائیل نہیں بلکہ سیاسی اسلام ان کا دشمن ہے۔
علی البغدادی کا کہنا ہے کہ قطر کی جانب سے حماس کی مدد دوحہ کے بائیکاٹ کا ایک سبب ضرور ہے مگر یہ براہ راست سبب نہیں۔
ابو ھلال کا کہنا ہے کہ عرب ملکوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کے منفی اثرات بلا شبہ غزہ کی پٹی کے محصورین پر پڑیں گے تاہم یہ توقع کی جانی چاہیے کہ تنازع سے دور رہنے والے عرب اور دیگر مسلمان ممالک غزہ کی پٹی کا گھیراؤ کرنے اور دو ملین آبادی کا محاصرہ مزید سخت کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
ابول ھلال کا کہنا ہے کہ قطر کا محاصرہ اور اسے تنہا کرنے کے خلیجی ممالک کی کوششیں انتہائی افسوسناک ہیں مگر تمام فریقین کو مذاکرات اور تنازع کےسفارتی حل کا باب ہمیشہ کھلا رکھنا چاہیے۔ کوئی ایک فریق بھی دوسرے کے اندرونی امور میں دخل اندازی نہ کرے بلکہ ایک دوسرے کی سلامتی اور خود مختاری کا احترام کرتے ہوئے تنازع کو مذاکرات کی میز پرحل کرے۔
جہاں تک فلسطینی مزاحمت کی حمایت کو ’تہمت‘ قرار دینے کی بات ہے تو کسی عرب یا مسلمان ملک سے اس کی توقع نہیں کی جانی چاہیے۔ مسلمان اور عرب ممالک کو تو فلسطینیوں کی حمایت اور مدد کو اپنا شعار بناتے ہوئے ان کے خلاف جاری صہیونی ریاستی دہشت گردی کی روک تھام کی جانی چاہیے۔
حماس کا گھیراؤ کیوں؟
اردنی تجزیہ نگار عریب الرنتاوی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ حماس کو خلیجی ملکوں کے درمیان پیدا ہونے والے سفارتی تنازع میں گھسیڑنا حیران کن ہے۔ حماس کے خلاف بیان بازی اس لیے بھی حیران کن ہے کہ اب تک کسی بھی خلیجی ملک نے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار نہیں دیا اور نہ ہی حماس کا کوئی لیڈر ان کی بلیک لسٹ میں شامل ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب حماس کے بارے میں خلیجی وزراء کے متنازع بیانات سامنے آئے تو حماس کے غزہ کی پٹی میں قاید یحیٰی السنوار مصر اور سعودی عرب کے دورے پر تھے۔ خود سعودی عرب حماس اور فتح کے درمیان مفاہمت کے لیے ہونے والے معاہدہ مکہ میں خالد مشعل کو اپنے ہاں دعوت پر بلا چکے ہیں۔ خالد مشعل اس سے قبل اور بعد میں بھی نہ صرف سعودی عرب بلکہ متحدہ عرب امارات بھی جا چکے ہیں۔
ایسے میں بھلا قطر پر عہد وفاء کے لیے پیش کردہ شرائط میں حماس کو بے دخل کرنے کا مطالبہ کیسے کیا جاسکتا ہے۔
اردنی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ سچ تو یہ ہے کہ خلیجی ممالک کی طرف سے اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] کے خلاف اچانک پیدا ہونے والا اشتعال ناقابل فہم ہے۔ تاہم یہ پیش رفت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ سعودی عرب کے بعد سامنے آئی ہے۔ ٹرمپ نے تو کھلے الفاظ میں اپنی تقریر میں حماس کو داعش ، القاعدہ اورالنصرہ فرنٹ کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے انہیں یکساں دہشت گرد گروپ قرار دیا۔ جب ٹرمپ حماس کو داعش اور القاعدہ کے پلڑے میں ڈال رہے تھے تو اس وقت پچپن مسلمان اور عرب ممالک کی قیادت موجود تھی اور قطر کے سوا کسی نے یہ جرات نہیں کی کہ وہ حماس کے بارے میں ٹرمپ کو بتائیں۔ ماسوائے ایک آدھ کے تمام عرب اور مسلمان ممالک نے حماس کے بارے میں ٹرمپ کے موقف پر خاموشی اختیار کی تو یہ خاموشی اس بات کا ثبوت تھی کہ عرب ممالک بھی حماس کو ٹرمپ ہی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
اردنی تجزیہ نگار لکھتےہیں کہ عرب ممالک اسرائیل کےساتھ ایک بڑا سمجھوتہ کرنا چاہتے ہیں مگر ان کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ حماس ہے۔ یہ ممالک بلا قیمت صہیونی ریاست کے ساتھ ہرطرح کے تعلقات کے قیام کے خواہاں ہیں۔
قصہ مختصر، موجودہ عرب ممالک بالخصوص خلیجی ملکوں کی جانب سے فلسطینی قوم، حماس اور قطر کے حوالے سے برتا جانے والا سلوک حیران کن ہے۔ بعض عرب ممالک کے کا خبث باطن اب کھل کر سامنے آیا ہے جو مظلوم فلسطینی قوم کی حمایت کے بجائے محض سیاسی اختلافات کی بناء پر مزاحمتی تحریکوں اور قطر جیسے مزاحمت پرور ملک کا گھیرا کررہے ہیں۔