اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیل کو مسجد اقصیٰ، قدیم یروشلم شہر اور اس کی دیواروں اور دیوار گریہ بارے اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے ’یونیسکو‘ کے اس فیصلے کا پابند بنائے جس میں القدس اور مسجد اقصیٰ کو صرف مسلمانوں کا مقدس مقام قرار دے کر یہودیوں کا دعویٰ باطل قرار دیا گیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق حماس کے ترجمان عبدالطیف القانوع نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ عالمی برادری یونیسکو کی قرارداد پرعمل درآمد یقینی بنانے کے لیے اسرائیل پر دباؤ ڈالے۔
انہوں نے کہا کہ اگر عالمی برادری کی طرف سے القدس اور مسجد اقصیٰ کو مسلمانوں کے مقدس مقامات قرار دیا گیا ہے تو اس کے بعد صہیونی ریاست کا ان مقامات پرقبضہ برقرار رہنا عالمی برادری کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہوگا۔
حماس کے ترجمان نے یونیسکو کے فیصلے پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کے ایک متنازع بیان کو صہیونی ریاست کی طرف داری قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ بان کی مون کا یونیسکو کی قرارداد پر برہمی کا اظہار کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ موجودہ سیکرٹری جنرل غیر جانب دارانہ اور حق پرستانہ موقف سے انحراف کرتے ہوئے صہیونی ریاست کی کھلم کھلا طرف داری کررہے ہیں۔
خیال رہے کہ دو روز قبل اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے سائنس وثقافت نے ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں بیت المقدس کو خالص مسلمانوں کا مقدس مقام قرار دیا تھا۔ اس قرارداد میں صاف صاف الفاظ میں کہا گیا ہے کہ یہودی مذہب کے پیروکاروں کا مسجد اقصیٰ اور تاریخی بیت المقدس پر ملکیت کا مذہبی دعویٰ قطعا باطل ہے۔
یونیسکو کی قرارداد پر صہیونی ریاست کی طرف سے سخت برہمی کا اظہار کیا گیا۔ اس فیصلے کےرد عمل میں اسرائیل نے یونیسکو کے ساتھ ہرقسم کا تعاون ختم کردیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق ’یونیسکو‘ کے پولینڈ کے شہر کراکوف میں ہونے والے 41 ویں اجلاس کے دوران روز بیت المقدس کی حیثیت کے بارے میں قرارداد پر رائے شماری کی گئی۔ یہ قرارداد دو تہائی کی اکثریت سے منظور کی گئی ہے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ بیت المقدس فلسطین کا عرب مقدس شہر ہے جس پر اسرائیلی اجارہ داری کی کوئی حیثیت نہیں۔
’یونیسکو‘ میں یہ قرارداد اردن، فلسطین اور عرب گروپ کی طرف سے پیش کی گئی تھی۔ قرارداد کی حمایت میں 10 اور مخالفت میں تین ووٹ ڈالے گئے۔ حمایت کرنے والے ملکوں میں آذر بائیجان، انڈونیشیا، لبنان، تیونس، قزاقستان، کویت، ترکی، ویتنام، زمبابوے اور کیوبا جب کہ مخالفت میں فلپائن، جمیکا اور بورکینا فاسو نے ووٹ ڈالے۔ آٹھ ممالک انگولا، کروشیا، فن لینڈ، پیرو، پولینڈ، پرتگال، کوریا اور تنزانیہ نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔
خیال رہے کہ بیت المقدس کی اسلامی ، فلسطینی اور عرب تاریخی حیثیت کے حوالے سے عالمی ادارے 12 قراردادیں منظور کرچکے ہیں، ان میں سات قراردادیں یونیسکو ہی کی فورم سے منظورکی گئی ہیں جن میں بیت المقدس کو عرب، فلسطینی اورمسلم ثقافتی علاقہ قرار دیا گیا ہے اور شہر پر سنہ 1967ء کی جنگ کے بعد اسرائیلی قبضے کو باطل قرار دیا گیا ہے۔
دوسری جانب اسرائیل نے قرارداد کو ناکام بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ صہیونی ریاست کی طرف سے بیت المقدس کے حوالے سے ’یونیسکو‘ میں قرارداد رکوانے کی ایک ایسے وقت میں کوشش کرتا رہا۔
عرب ممالک کی طرف سے پیش کی گئی، جس میں کہا گیا کہ مقبوضہ بیت المقدس اسرائیل کے ناجائز تسلط میں ہے۔ پرانے بیت المقدس پر اسرائیل کا کوئی حق نہیں۔
’یونیسکو‘ کی قرارداد کی رو سے بیت المقدس کے تاریخی شہر پر اسرائیلی قبضہ اور وہاں پر کسی بھی قسم کی تبدیلی کو بنیادی حقوق کے منافی قرار دیا گیا ہے۔ قرارداد میں کہا گیاہے کہ القدس پر سنہ 1967ء کی جنگ میں قبضہ اور 1980ء کو بیت المقدس کو جنوبی بیت المقدس میں ضم کرتے ہوئے اسے صہیونی ریاست کا دارالحکومت قرار دینے کا اعلان باطل قرار دیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ ’یونیسکو‘ اسی نوعیت کی 18 قراردادیں پہلے بھی منظور کر چکی ہے جن میں اسرائیل کے قبضے کو غیرقانونی قرار دیا تھا۔ ان میں بیت المقدس میں مقدس مقامات پر مسلمانوں کے حق کو ثابت کیا گیا اور کہا گیا ہے کہ بیت المقدس کے تمام مقدس مقامات مسلمانوں کی ملکیت ہیں۔ مسجد اقصیٰ صرف مسلمانوں کا مقدس مقام ہے جس پر یہودیوں کا کوئی حق نہیں۔
اس قرارداد میں بیت المقدس میں اسرائیلی آثار قدیمہ کے حکام کی طرف سے جاری کھدائیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے شہرمیں جاری اسرائیلی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے عالمی مبصرین تعینات کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔