جمعہ 14 جولائی 2017ء کو تحریک آزادی فلسطین کےلیے ایک نیا اور تاریخی دن قرار دیا جائے گا کیونکہ اس روز تین فلسطینی سرفروشوں نے دو غاصب صہیونی پولیس اہلکاروں کو اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہوئے جنہم واصل کرکے صہیونی دشمن کے ناقابل تسخیر دفاع کے بھونڈے دعوے کو ریزہ ریزہ کرکے رکھ دیا۔
مسجد اقصیٰ میں مزاحمتی فدائی کارروائی کو جس پہلو سے بھی دیکھا جائے وہ صہیونی ریاست کی ناکامی کا واضح ثبوت ہے۔ تین فلسطینی سرفروشوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر فائرنگ اور چاقو سےحملوں میں دو صہیونی پولیس اہلکاروں کو جنہم واصل کیا اور ایک کو شدید زخمی کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ تحریک آزادی فلسطین اور انتفاضہ القدس آج بھی اپنی پوری قوت کے ساتھ جاری ہے۔ بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ جہاں پر چڑیا بھی صہیونیوں کی اجازت کے بغیر پرنہیں مار سکتی اور ایک سوئی بھی وہاں تک پہنچانا ایک خواب سمجھا جاتا ہے مگر جری اور بہادر فلسطینی سپوتوں نے پستول اور چاقو وہاں تک پہنچا کر دشمن پر ایسا کاری وار کیا ہے جس کے نتیجے میں لگنے والا گھاؤ تا دیر رہے گا۔ سب سے بڑھ کر یہ کارروائی صہیونی ریاست کے ناقابل تسخیر ہونے کے دعوے پر وار ہے۔
مسجد اقصیٰ میں فدائی حملے کے واقعے نے اسرائیل کو ایک بار پھر یہ پیغام دیا ہے کہ وہ فلسطینی قوم کو غلام بنا کران کے حقوق زیادہ دیر تک غصب نہیں رکھ سکتا۔ تین فلسطینی نوجوانوں نے جس جرات اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف بہادری بلکہ بہترین منصوبہ بندی اور غیرمعمولی عسکری مہارت کا مظاہرہ کرکے صہیونی ریاست کے دفاع کے لیے بھاری رقوم سے تیار کردہ سورماؤں کو بھی چونکا دیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے فلسطینی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مجاھدین نے مسجد اقصیٰ میں کارروائی کے لیے جس وقت کا انتخاب کیا وہ ان کی کامیاب عسکری حکمت عملی کا بین ثبوت ہے۔ یہ کارروائی ایک ایسے وقت میں عمل میں آئی ہے جب حالیہ مہینوں کے دوران قبلہ اول اور حرم قدسی پر ناپاک صہیونیوں کی یلغار میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔
فلسطینی دانشور حمزہ ابو شنب نے مرکز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسجد اقصیٰ میں فدائی حملہ مزاحمت کاروں کی نئی اور بہترین معیاری حکمت عملی کا غماز ہے۔ اس کارروائی نے ایک باریہ ثابت کیا ہے کہ فدائی حملہ کرنے والے سرفروشوں نے قوم اور ملک کی جغرافیائی وحدت کو تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔
ابو شنب کا کہنا ہے کہ فلسطینی مزاحمت کاروں نے القدس میں دو اسرائیلی فوجیوں کو جہنم واصل کرکے اسرائیلی فوج کے دفاع کے ناقابل تسخیر ہونے کے دعوے کو پاش پاش کردیا ہے۔ ایک معمولی کارروائی نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس صہیونی ریاست عملا ریت کی کھوکھلی عمارت سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ رہی سہی کسر صہیونی فوج اور پولیس کی طرف سے مسجد اقصیٰ کے مرابطین اور محافظوں کے خلاف کریک ڈاؤن نے نکال دی ہے۔ صہیونی فوج اپنی ناکامی اور خفت چھپانے کے لیے قبلہ اول میں نماز کے لیے آنے والے فلسطینیوں کا تعاقب کرنے کی مجرمانہ اور مکروہ چالوں میں سرگرم ہے۔
تجزیہ نگار ابراہیم المدھون نے ابو شنب کی بات سے اتفاق کرتے ہوئےکہا کہ مسجد اقصیٰ میں کی گئی فدائی کارروائی کی غیرمعمولی زمانی اہمیت ہے۔ یہ کارروائی فلسطینیوں کی فطری تحریک آزادی اور انتفاضہ القدس کے تسلسل پر دلالت کرتی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں المدھون نے کہا کہ مزاحمتی کارروائیوں کے لیے اگرچہ کوئی وقت متعین نہیں ہوتا۔ جمعہ کے روز مسجد اقصیٰ میں ہونے والی کارروائی قابض صہیونیوں کی مسلسل خلاف ورزیوں اور مسجد اقصیٰ کے وجود کو لاحق خطرات کے تناظرمیں ایک برمحل اور بروقت کارروائی قرار دی جاسکتی ہے۔ اس کارروائی نے دشمن کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ قبلہ اول کے خلاف اپنی سازشوں کو دوام نہیں دے سکتا اور اس کے تمام تر سیکیورٹی ادارے بھی فلسطینی مزاحمت کاروں کو قبلہ اول کے دفاع کے لیے کسی بھی کارروائی سے نہیں روک سکتے۔
المدھون کا کہنا تھا کہ الاقصیٰ کارروائی کی زمانی اہمیت کے ساتھ ساتھ مکانی اہمیت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ کارروائی ایک ایسے مقام پر کی گئی جہاں چپے چپے پر اسرائیلی فوج، پولیس، خفیہ ادارے اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار ہمہ وقت موجود اور چوکس رہتے ہیں۔ مسجد اقصیٰ اپنے آفاقی اور عالمی تقدس کی بدولت پوری دنیا کی توجہ کا مرکز ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس جگہ پرہونے والی فدائی کارروائی کو عالمی سطح پر غیرمعمولی پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ اس کارروائی نے عالم اسلام اور عرب دنیا کو بھی متنبہ کیا اور انہیں یہ پیغام دیا ہے کہ قابض دشمن کے ساتھ راہ و رسم بڑھانے کو فلسطینی قوم قبول نہیں کرتی۔
الاقصیٰ کارروائی کے اشارے
فلسطینی تجزیہ نگار ابو شنب کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو خدشہ لاحق تھا کہ فلسطینی کسی بھی وقت اجتماعی یا انفرادی نوعیت کی طاقت ور مزاحمتی کارروائی کرسکتے ہیں۔ اس طرح کی کارروائیاں انفرادی نوعیت کی ہیں اگرچہ اس میں تین فلسطینی جانثاروں نے اپنی جانوں کی قربانی دی ہے۔ مگراس کے پیچھے کسی فلسطینی تنظیم کا کردار نہیں۔
ابو شنب کا کہنا ہے کہ اسرائیلی سیکیورٹی اداروں کو غیرمعمولی پریشانی اور تشویش اس بات پر ہے کہ غرب اردن اور اندرون فلسطین میں جاری تحریک انتفاضہ انفرادی نوعیت کی مزاحمتی کارروائیوں کا مرکز نہ بن جائے۔ اس کارروائی نے صہیونی ریاست پر دفاع کے حوالے سے ایک نیا بوجھ ڈال دیا۔
فلسطینی تجزیہ نگار کے مطابق اسرائیلی فوج کسی بھی فلسطینی علاقے میں جمع ہونے والے فلسطینیوں کو طاقت کے ذریعے منتشر کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوسکتی ہے۔ دشمن کو یہ خطرہ لاحق ہے کہ کوئی بھی تین فلسطینی کسی ایک جگہ جمع ہو کر کوئی زبردست نوعیت کا فدائی حملہ کرکے اسرائیل کو غیرمعمولی نقصان سے دوچار کرسکتے ہیں۔
اگر فلسطینی نوجوانوں کے پاس دشمن سے لڑنے کے لیے مزید بہتر وسائل ہوں تو وہ صہینیوں کو زیادہ سے زیادہ جانی اور مالی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
اسرائیلی وزراء کے لیے انتباہ
فلسطینی دانشور کے مطابق بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کے اطراف میں کی جانے والی مزاحمتی کارروائیوں سے دشمن کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ یہ کارروائیاں مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کے پے درپے واقعات کا رد عمل ہیں۔ اس کے علاوہ صہیونی اور ارکان پارلیمنٹ کو پولیس کی طرف سے مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے کی جو اجازت دی گئی ہے، الاقصیٰ کارروائی اس کا عملی جواب ہے۔ اس کارروائی کے ذریعے اسرائیلی وزراء اور دیگر سرکردہ شخصیات کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر انہوں نے مسجد اقصیٰ کا تقدس پامال کرنے کی مذموم کوشش کی تو اس کے سنگین نتائج سامنے آسکتے ہیں۔
فلسطینی سیاسی رہ نما اور تجزیہ نگار ایاد القرا نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ الاقصیٰ کارروائی نے صہیونی دشمن کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ القدس میں مسلمانوں کے مقدس مقامات کی بے حرمتی سے باز رہیں ورنہ انہیں بھی ایسی ہی کارروائیوں سے نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ نیز اس کارروائی نے یہ ثابت کیا ہے کہ اسرائیلی فوج اور پولیس مل کر بھی فلسطینیوں کو قبلہ اول سے اپنا تعلق ختم کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔
ایاد القرار کا کہنا ہے کہ الاقصیٰ کارروائی کے فلسطینی نوجوانوں پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ اس کارروائی نے فلسطینی نوجوانوں کو قبلہ اول کے دفاع کے لیے ایک نیا حوصلہ ، جذبہ اور ولولہ عطا کیا ہے۔ اس کے بعد فلسطینی نوجوان زیادہ بہتر تربیت حاصل کرکے پہلے سے زیادہ کامیاب اور موثر کارروائی کرسکتے ہیں۔
اندرونی اور بیرونی حلقوں کے لیے پیغام
حمزہ ابو شنب کا کہنا ہے کہ مسجد اقصیٰ میں ہونے والا فدائی حملہ اہم اور حساس ہونے کے ساتھ ساتھ نہ صرف فلسطینیوں کے لیے اہمیت کا حامل ہے بلکہ یہ اندرونی اور بیرونی حلقوں کے لیے بھی واضح پیغام ہے۔
یہ کارروائی ایک ایسے وقت میں کی گئی ہے جب فلسطینی قوم بجلی اور انسانی بحرانوں جیسے سنگین مسائل کا شکار ہے۔
یہ کارروائی ان عرب ممالک کے لیے بھی پیغام ہے جو فلسطینی تحریک آزادی کو دہشت گردی کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے غاصب صہیونی دشمن کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے قیام کی پینگیں بڑھا رہے ہیں۔
اس کاررائی نے ماضی میں الاقصیٰ کے عنوان سے شروع کی گئی کارروائیوں کی یاد تازہ کردی ہے۔ یہ فلسطینی قوم کے لیے انقلاب کا عنوان ہے۔ انتفاضہ الحجارہ، انتفاضہ القدس، سنہ 1929ء کا انقلاب براق سب کے سب الاقصیٰ کی بنیاد پر شروع ہونے والی تحریکیں تھیں۔
اندرونی سطح پر اس کاررائی سے یہ پیغام دیا گیا کہ فلسطینی قوم نے انتفاضہ القدس کو کچلنے کے لیے صہیونی ریاست کی تمام سازشوں کو ناکام بنا دیا ہے۔ تجزیہ نگار المدھون کا کہنا ہے کہ الاقصیٰ حملے نے واضح کردیا ہے کہ فلسطینی قوم دشمن کے سامنے سینہ سپر ہوگی اور نہ ہی مزاحمت سے دست کش ہوگی۔ آنے والے دنوں میں مزاحمت مزید موثر اور طاقت اختیار کرے گی۔