جمعه 15/نوامبر/2024

غصہ اسرائیل پر، سزا اہلیان غزہ کو!

ہفتہ 26-اگست-2017

غزہ کی پٹی کےعوام کے مصائب وآلام کو میں بہر صورت نظرانداز نہیں کر سکتا۔ غزہ کی پٹی عرب وجدان میں’بِڑوں کا چھتا‘ ہے، جس کے خلاف محمود عباس کے اٹھائے گئے انتقامی اقدامات کو امریکا نے مسترد کردیا ہے۔ غزہ کی پٹی کی ناگفتہ بہ صورت حال کو نظرانداز کرکے میں کسی دوسرے موضوع پربات نہیں کرسکتا۔ عرب خطے، عالمی سطح پرہونے والے تغیرات، روس، چین اور بھارت میں اسرائیل کا بڑھتا اثرو رسوخ یہ سب موضوع اہم ہیں مگر غزہ کے عوام کے رِستے زخموں کا معاملہ ان سے بھی زیادہ اہم ہے۔ غزہ کی پٹی کے زخم سے رستا خون محمود عباس کی حسرت کے خنجر پر بہہ رہا ہے۔ مجھے یہ لکھنا پڑ رہا ہے کہ محمود عباس اسرائیل کو اقوام متحدہ سے رجوع کی دھمکیاں دیتے ہیں مگر ان کے پاس عملی اقدامات کے لیے غزہ کی پٹی کے عوام اوردلیرانہ مزاحمت پرغصہ نکالنے کے سوا کچھ نہیں۔

اخبار’الحیاۃ‘ نے فلسطینی اتھارٹی کے ایک قابل اعتماد ذریعے کے حوالے سے بتایا ہے کہ حالیہ ہفتوں کے دوران محمود عباس علاقائی اور عالمی حلقوں پر سخت برہم ہیں۔ بالخصوص امریکا پراُنہیں غصہ ما سوا ہے۔ اس کی وجہ امریکا کی طرف سے غزہ کی پٹی کے خلاف ان کے انتقامی اقدامات کو مسترد کرنا بتایا جاتا ہے۔ محمود عباس نے غزہ کی پٹی کے سرکاری ملازمین تنخواہوں میں کمی، ہزاروں ملازمین کی جبری ریٹائرمنٹ، غزہ کی پٹی کی بجلی بند کرنا اورغزہ میں متعدی اور وبائی امراض کے خطرات پھیلا کرامریکا کو خوش کرنے کی کوشش کی مگر امریکی انتظامیہ کی طرف سے مسترد کردیا تھا۔

اخباری رپورٹ نے فلسطینی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ محمود عباس متبادل سیاسی اور سفارتی ذرائع استعمال کرنے پر غور کررہے ہیں۔ ان متبادل آپشنز مین فلسطینی اتھارٹی کو تحلیل کرنا، حکومت اور مجلس قانون ساز کوختم کرتے ہوئے تمام انتظامی امور تنظیم آزادی فلسطین کو سپرد کرنا ہے۔

محمود عباس کا سیاسی گھوڑا انتظامی کھونٹے سے بندھا ہوا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کو تحلیل کرنے سے قبل وہ فلسطینی قانون ساز کونسل کو تحلیل کررنا چاہتے ہیں۔ تاکہ ان کے کسی اقدام کو قانون ساز کونسل میں چیلنج نہ کیا جاسکے۔

تنظیم آزادی فلسطین کے ڈھانچےمیں تبدیلیوں اور اصلاح کے بغیر فلسطینی اتھارٹی کو تحلیل کرنے کی بات کرناباعث حیرت ہے۔ محمود عباس رام اللہ میں نیشنل کونسل کا اجلاس منعقد کرنے کی تیاریاں کررہے ہیں۔ یہ اجلاس محمود عباس کو تنظیم آزادی فلسطین کے پرانے طرز پرنئے قیادت کے انتخاب کا ایک نیا موقع فراہم کرے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ محمود فیصلہ سازی کا اختیار اپنے ہاتھ میں ررکھنا چاہتے ہیں۔ تنظیم ازادی فلسطین کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین  اور مرکزی کونسل کے سربراہ کی حیثیت سے وہ تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں۔

اگر محمود عباس دیگر فلسطینی جماعتوں کی قیادت کو اعتماد میں لیے بغیر فلسطینی اتھارٹی کو تحلیل کرتے ہیں تو یہ محض ایک ڈرامہ ہوگا۔ اگرایسا ہو گیا تو فلسطین میں یہودی آباد کاروں کو کھل کھیلنے کا نیا موقع اور محمود عباس کو غزہ کے عوام کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا نیا بہانہ مل جائے گا۔

محمود عباس کے انفرادی حیثیت سے کیے گئے فیصلوں کو تمام فلسطینی قوتیں تسلیم نہیں کریں گی۔ محمود عباس اپنے فیصلوں اور اقدامات کے رد عمل میں ہونے والی تنقید اور مذمت کو بھی نہیں روک سکیں گے۔ ہاں اگر وہ قومی سطح کے فیصلوں کو موثر بنانا چاہتے ہیں تو انہیں لا محالہ اپنے مخالفین کو بھی ساتھ ملانا ہوگا۔ فطری طور پر فلسطینی قوم مزاحمت پسند ہے۔ یہ حقیقت آس پاس والے بھی جانتے ہیں۔ آنے والے وقت میں زیادہ سختی کے ساتھ محاسبہ کیا جاسکتا ہے۔

لینک کوتاه:

کپی شد