میں ذاتی طور پرعالمی ذرائع ابلاغ پر کم ہی توجہ دیتا ہوں۔ مجھے عالمی ذرائع ابلاغ کے پیچھے ہمیشہ یہ گھٹیا نوعیت کے سیاسی اغراض ہی کی توقع رہی ہے، خاص طور پر ایسے ایشوز جو میڈیا کی طرف سے خود پر مسلط نہیں کی جاتے بلکہ مخصوص لابی کے ایجنڈے کا حصہ ہوتے ہیں، ابلاغی اداروں کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔
جہاں تک برما کے روہنگیا مسلمانوں کے مسئلے کا تعلق ہے تو میں نے بہت کم ذرائع ابلاغ کو اس معاملے کی تہہ تک جاتے یا باریکی سی تجزیہ کرتے دیکھا۔ دراصل روہنگیا مسلمانوں کے معاملے پر بات کرنا انسانی مسئلے پر بات کرنا ہے۔ مظالم کا شکار مسلمانوں کے لیے ہمدردی بڑھانا، ان کے لیے عطیات اور انفاق پر ابھارنا ہے۔ یہ نہ صرف مستحسن بلکہ بلا شبہ مسلمانوں پر واجب کا درجہ رکھتا ہے۔ سچ پوچھیں تو یہ مسئلہ اس سے کہیں بڑا ہے۔
آج تک میں نے ایسا کوئی قضیہ نہیں دیکھا جو اس حد تک فاشسٹ سیاست اور مذہبی فرقہ واریت میں خلط ملط ہو۔ جس میں مخصوص مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو تشدد عرصہ دراز سے تشدد کا سامنا رہا ہو برما کے مسلمانوں کے مسئلے سے بڑھ کر کوئی اور ایسا تنازع نہیں دیکھا گیا۔
جہاں تک روہنگیا مسلمانوں کے مسئلے کے حل کے لیے نام نہاد مسلمان ممالک کے کردار کا سوال ہے تو یہ ہمارا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ برما کا پڑوسی مسلمان ملک بنگلہ دیش کا کردار سب سے زیادہ شرمناک اور گھٹیا ہے۔ اگرچہ بنگلہ دیش کا یہ دعویٰ ہے کہ برما کے مسلمانوں کے حوالے سے اس کا موقف سیاسی ہے، مگر درحقیقت اخلاقیات سے عاری سیاسی موقف ہے۔ صرف بنگلہ دیش ہی نہیں بلکہ ملائیشیا اور انڈونیشیا بھی مسلمان مہاجرین کے ساتھ کوئی اچھا برتاؤ نہیں کرتے۔ ان کا طرز عمل بھی انسانیت سے ہرگز لگا نہیں کھاتا۔
روہنگیا مسلمانوں کے بارے میں امریکی موقف بھی سیاست سے آلود ہے تاہم اقوام متحدہ کا موقف تمام عرب اور مسلمان ممالک کے موقف کی نسبت زیادہ جاندار ہے۔ اس میں صرف ایک ترکی کو استثنیٰ حاصل ہے جو کھل کر روہنگیا مسلمانوں کے حقوق کی بات کرتا ہے۔ اقوام متحدہ اور امریکا کا موقف کیا ہے اس کی تفصیل کے لیے ایک طویل مضمون درکار ہوگا۔
برما میں زمام اقتدار فاشسٹ عسکریت پسند بدھ مذہبی طبقے کے ہاتھ میں ہے جو اپنے عقائد میں انتہا درجے کے شدت پسند واقع ہوئے ہیں۔ وہ صرف مسلمانوں ہی کو نہیں بلکہ اپنے ملک میں بدھ بکشوؤں کے سوا باقی تمام مذہب کے پیروکاروں ہندووں، مسلمانوں۔ کانفیوشس، سکھوں اور برہمنوں سمیت دیگر مذاہب کا وجود برادشت نہیں کرتے۔ ان کا خیال ہے کہ روہنگیا ہندوؤں، عربوں ایرانیوں، ترکوں، چینیوں اور یونانیوں کامرکز ہے اور یہ سب لوگ جنگوں کے ذریعے ان کی مزعومہ مقدس سرزمین میں آئے ہیں۔
روہنگیا کے مسلمانوں کے بارے میں اس عسکریت اور انتہا پسند حکمران بدھ ٹولے کا خیال ہے کہ یہ لوگ بنگلہ دیش سے وہاں آکر آباد ہوئے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ برما پر انگریز کی حکومت کے دور میں یہاں پر مسلمانوں کو لایا گیا تھا۔ یہ مسلمان کسی مجبوری کے تحت نہیں بلکہ برطانوی سامراج کے ایجنٹ بن کر برما میں داخل ہوئے تاکہ بدھ مذہب کی عظمت کو ریزہ ریزہ کرسکیں۔ اراکان کا مذہبی شدت پسند ٹولہ یہ بھی تسلیم نہیں کرتا کہ وہاں کے برما خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں اسلامی خلافت کا حصہ رہا اور وہاں پر 30 مقامی گورنر مسلمان گذر چکے ہیں۔
روہنگیا کے مسلمانوں کے مصائب وآلام نئے نہیں۔ روہنگیا میں بسنے والے مسلمان کئی ہمسایہ ملکوں میں آ کر آباد ہونے لگے ہیں۔ ان میں ایک بڑا گروپ سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ میں آباد ہوا۔ روہنگیا سے ھجرت کرنے والے مسلمانوں کی تعداد نصف ملین کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔ سعودی عرب کے لیے دیگر اندرونی مسائل کے ساتھ روہنگیا کے مسلمانوں کی آباد کاری کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کا دوسرا بڑا گروہ بنگلہ دیش میں داخل ہوچکا ہے۔ اگرچہ بنگلہ دیش کی حکومت نے روہنگیا مسلمانوں کو قبول کرنے سے انکا کردیا ہے۔
روہنگیا مسلمانوں کےمسئلے کا حل فولادی سیاسی عزم کا متقاضی ہے اور یہ کام کوئی مسلمان ملک نہیں بلکہ ملکوں کا ایک گروپ مل کر کرسکتا ہے۔ مسلمان ممالک کو اس مسئلے کے حل کے لیے واضح خطوط متعین کرنا ہوں گے۔ برما کے پڑوسی ملکوں پر بھی بحران کے حل میں مدد کے لیے دباؤ ڈالنا ہوگا۔ برما کے مسلمانوں کے مصائب برقرار رہنا چین، بھارت، بنگلہ دیش، پاکستان، ملائیشیا اور تھائی لینڈ میں سے کسی کے مفاد میں نہیں۔ اقوام متحدہ کی واضح قراردادوں کے باوجود اور مسئلے کے انسانی پہلو واضح ہونے کے علی الرغم صدیوں تک روہنگیا مسلمانوں کو مصائب کی چکی تلے نہیں پیسا جاسکتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ برما کے مسلمانوں کے مسئلے کا حل سابق یوگو سلاویہ ، صربوں اور کروشیا میں خوفناک خانہ جنگی اور مقدونیا اور البانیا میں طویل عرصے تک جاری رہنے والے قتل عام کے مسائل سے زیادہ مشکل نہیں۔ کیونکہ مذکورہ تمام مسائل مخصوص مفاداتی اصولوں، جغرافیائی سرحدوں کی تقسیم یا خود مختاری جیسے تنازعات کے گرد گھومتے تھے جب کہ روہنگیا کا مسئلہ صرف انسانی قضیہ ہے۔