اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے سیاسی شعبے کے نائب صدر ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق نے کہا ہے کہ جنگ یا امن کا فیصلہ کوئی ایک فلسطینی تنظیم یا جماعت نہیں کرسکتی۔ اس نوعیت کے قومی فیصلے تمام فلسطینی قوتوں کو مشترکہ طورپر کرنے ہیں تاکہ جنگ اور امن کی ذمہ داریاں بھی آپس میں تقسیم کی جا سکیں۔
حماس کے نائب صدر نے ان خیالات کا اظہار دورہ روس کے دوران ماسکو میں لندن سے شائع ہونے والے اخبار’الحیات‘ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی تحریک مزاحمت کو غیرمسلح کرنے کی کوئی تجویز کسی بھی مذاکراتی عمل کا حصہ نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ حماس فلسطین میں پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کے شفاف ہونے کی ضمانت طلب کرے گی۔
ایک سوال کے جواب میں حماس رہ نما نے کہا کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کو غیر مسلح کرنے کی کوئی تجویز یا مطالبہ کسی بھی فورم پر ہونے والی بات چیت کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی قوم کے پاس اسلحہ صہیونی ریاست کے جرائم کا جواب دینے کی ایک ضمانت ہے اس لیے اس پر کسی قسم کی بات چیت کرنا بھی بے سود ہے۔
ابو مرزوق نے کہا کہ ان کی جمات جنگ یا امن کے فیصلوں میں فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ فیصلہ سازی اور ذمہ داریوں میں تقسیم کے لیے تیار ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جنگ یا امن کا فیصلہ اجتماعی ہونا چاہیے جس میں تمام فلسطینی قوتیں شامل ہوں۔ ایسے کسی بھی فیصلے میں حماس اپنے اوپر ڈالی گئی ذمہ داریوں سے کما حقہ عہدہ برآ ہونے کے لیے تیار ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ فلسطینی قوم کے مستقبل اور حق خود ارادیت کے لیے اختلافات کے بجائے فلسطینی قوم کو ایک فارمولے پر متفق ہونا پڑے گا۔
حماس کی پیشکش پر محمود عباس کے جواب کا انتظار
حماس کی جانب سے فلسطین میں قومی مفاہمت کے لیے اٹھائے اقدامات کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق نے کہا کہ ان کی جماعت نے پہل کرتے ہوئے غزہ کی پٹی میں قائم اپنی عبوری انتظامی کمیٹی ختم کردی ہے۔ اب ہمیں صدر محمود عباس کی جانب سے حماس کے اقدامات کے جواب کا بے تابی سے انتظار ہے۔ محمود عباس کو جلد از جلد قومی مفاہمت کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی چائیں۔
ابو مرزوق نے کہا کہ توقع ہے کہ مصر کی جانب سے مفاہمت کے لیے دی جانے والی دعوت پر محمود عباس جلد جواب دیں گے۔ حماس مصری قیادت کے ساتھ فلسطین میں انتخابات کے انعقاد، تنظیم آزادی فلسطین کے ڈھانچے میں اصلاحات، نیشنل کونسل اور دیگر امور پر تفصیلی مذاکرات ہوئے ہیں۔
انتخابات سےمتعلق خوف کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں ابو مرزوق نے کہا کہ انتخابات کا معاملہ غیرمعمولی پیچیدگی کا شکار ہے۔ کیا انتخابات غرب اردن، غزہ اور بیت المقدس میں ہوں گے؟ کیا ووٹروں اور امیدواروں کے لیے کوئی شرائط بھی ہوں گی؟ وہ شرائط کس نوعیت کی ہوسکتی ہیں اس کی وضاحت ضروری ہے۔
تحریک فتح کے منحرف رہ نما محمد دحلان کے ساتھ روابط کے حماس سے حماس کی قیادت میں اختلافات سے متعلق سوال کے جواب میں ابو مرزوق نے کہا کہ جماعت کی پوری قیادت ایک ہی طرح کی سوچ رکھتی ہے۔ ہمارا سب سے اہم مقصد فلسطینی قوتوں میں مفاہمت کا عمل آگے بڑھانا ہے۔
اپنے دورہ روس کے بارے میں بات کرتے ہوئے ابو مرزوق نے کہا کہ ماسکو کے دورے میں حماس کے وفد نے روسی حکام کو فلسطین کی تازہ ترین صورت حال اور اس حوالے سے علاقائی اور عالمی سطح پر ہونے والی پیش رفت کے بارے میں بھی آگاہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حماس نے روسی قیادت کو بتایا کہ حماس تمام فلسطینی قوتوں کے درمیان اتحاد کی پر زور حامی ہے اور اس کے لیے عملی کوششیں بھی کررہی ہے۔ روسی حکومت کی طرف سے بھی فلسطینیوں میں پائے جانے والے اختلافات جلد از جلد ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔