حال ہی میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو اور میزائل ڈیفنس فورس کے چیف جنرل ’زویکا ھمیوفیٹز‘ نے اپنے بیانات میں بتایا کہ جنوبی فلسطین میں جزیرہ نما النقب میں ایک امریکی فوجی اڈے کا افتتاح کیا گیا ہے۔ جنوبی فلسطین میں امریکی فوجی اڈے کے قیام کا اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں مشرق وسطیٰ میں دیر پا قیام امن پر زور دیا جا رہا ہے۔ فلسطین میں فوجی اڈے کے قیام کا اعلان اور اقوام متحدہ میں فلسطینیوں کے حقوق بالخصوص لاکھوں فلسطینی پناہ گزینوں کے حق واپسی، سنہ 1967ء کی حدود سے اسرائیل کا انخلا، غرب اردن میں جاری یہودی آباد کاری پر پابندی اور اس کے دیگر تمام غیرآئینی منصوبوں کے خلاف منظور کردہ قراردادوں پر عمل درآمد کی باتیں کی جا رہی ہیں۔
ایک طرف اقوام متحدہ میں قضیہ فلسطین پرگرما گرم بحث سے امید کی کرن روشن ہوئی تو دوسری طرف امریکی فوجی اڈے کے قیام کی خبر نے امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ امریکی انتظامیہ جو خطے میں امن وامان کے قیام کی دعوی سمجھی جاتی ہے علاقائی توازن کو ڈیٹرنس کے پیمانے میں اپنے مخصوص انداز میں قائم کرنا چاہتی ہے۔ حالانکہ علاقائی عدم توازن صہیونی ریاست کی غزہ کے مظلوم فلسطینیوں پر تین بار ظالمانہ جنگیں مسلط کرنے کا موجب بن چکا ہے۔ فلسطینیوں کی امیدوں کو اس وقت اور دھچکا لگا جب اسرائیل میں نئے امریکی سفیر ڈیوڈ فریڈ مین نے اقوام متحدہ کی قراردادوں جن میں فلسطین میں یہودی آباد کاری کی مذمت کے ساتھ سنہ 1967ء کی جنگ میں قبضے میں لیے گئے فلسطینی علاقوں کے حصے بخرے کرنے کی صہیونی پالیسی کی مخالفت کی گئی تھی پر یو این کے بجائے اسرائیل کی طرف داری شروع کر دی۔
یہ ایک عجیب بات ہے کہ ایک طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ شمالی کوریا کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالنے کی دھمکیاں دیتے ہیں مگر اسی وقت میں امریکی بحریہ کی طرف سے یہ اعلان سامنے آتا ہے کہ وہ پیسفیک سمندر اور جنوب مشرقی ایشیا کی سمندری حدود میں موجود اپنے ساتویں بحری بیڑے کو واپس لا رہا ہے۔ نیز پینٹا گون جزیرہ نما کوریا میں اپنی تمام تر فوجی سرگرمیوں کو محدود کررہا ہے۔ مسلسل جنگ کی دھمکیوں کے علی الرغم امریکا نے شمالی کوریا کی طرف سے لاحق خطرات کے تدارک کے لیے اس کے قریب کوئی ایک بھی نیا فوجی اڈہ قائم نہیں کیا حالانکہ شمالی کوریا جدید ترین میزائلوں کی تیاری کے ساتھ ساتھ جوہری بم بھی تیار کر رہا ہے۔
شمالی کوریا کی تباہ کن اسلحہ کے حصول کی دوڑ سے اس کے پڑوسی ملک بھی خوف کا شکار ہیں۔ ایسے میں امریکا نے شمالی کوریا کی طرف سے لاحق خطرات کو نظرانداز کرتے ہوئے صہیونی ریاست کا دفاع مزید مضبوط بنانے کی پالیسی اپنائی ہے اور صہیونی ریاست کے مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھ مضبوط کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے،حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ خطرہ صہیونیوں کو نہیں بلکہ فلسطینی قوم کو ان غاصبوں سے ہے جو مسلسل انتہا پسندی کی طرف گامزن ہیں۔
امن کی تلاش ایک خوش آئند کوشش ہے مگر یہ کمزورں کو طاقت وروں کے سامنے جھکانے سے حاصل نہیں ہوگا بلکہ کمزور اور مظلوم کو انصاف فراہم کرنے اور اس کے حقوق کے دفاع سے حاصل ہوگا۔ البتہ اس باب میں ہمارے سامنے امریکی پالیسی ہمیشہ انصاف اور مظلوم کے دفاع کے بجائے اسرائیل کی طرف داری پر قائم رہی ہے۔
جنگل کا قانون نافذ کرنے اور انتہا پسندوں کو اقتدار پر فائز کرنے سے بھی امن کے خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوں گے۔ امریکا نے اسرائیل کے بارے میں جو جانب دارانہ پالیسی اختیار کر رکھی ہے اس کا منفی پیغام بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کو اسرائیل میں پھلنے پھولنے سے روکنے کے بجائے انہیں مزید طاقت ور بنانے کا موجب بنے گا۔ یہ حقیقت ہرایک کو جان لینی چاہیے کہ اسرائیل کے مقتدر انتہا پسند عرب ممالک اور خطے کی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔
عالمی حالات کو دیکھا جائے تو امریکا کے لیے اگر خطرہ ہوسکتا ہے تو وہ عرب ممالک نہیں بلکہ مغربی ایشیا ہے۔ اس لیے امریکی حکومت اور اس کے سیکیورٹی اداروں کو جزیرہ نما کوریا میں اپنی دفاعی پوزیشن مستحکم کرنی چاہیے۔ عرب ممالک میں فوجی اڈے قائم کرنے یا اسرائیل کے انتہا پسندوں کی غیر مشروط مدد اور حمایت کرنے سے ان انتہا پسند صہیونیوں کے غلو اور وحشت و بربریت میں اضافہ تو ہوسکتا ہے امریکا کو لاحق خطرات کم نہیں ہوسکتے۔ پچھلے کئی سال سے امریکا کی صہیونیت نوازی پر مبنی پالیسی نے اسرائیل کے انتہا پسندوں کو مضبوط کیا۔
تواتر کے ساتھ ہونے والی امریکی تزویراتی غلطیوں کے نتیجے مین بنیاد پرستی، انتہا پسندی اور نہ ختم ہونے والی خونی لڑائیوں نے جنم لیا۔ یہ انتہا پسندی اور لڑائیاں تقریروں، کانفرنسوں، سیمینار اور گونج دار نعروں سے کبھی ختم نہیں ہوسکتا۔ بہتر ہے کہ امریکا خطے میں اپنے اثرو نفوذ کو بڑھانے اور نرم قوت کو کم کرنے کے بجائے ان غلطیوں کا ازالہ کرے جو اب تک مشرق وسطیٰ میں حقیقی اور دیر پا امن کے قیام میں رکاوٹ رہی ہیں۔