عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق جوہری بم حملوں کے لیے استعمال ہونےوالے امریکی جنگی طیارے’B-52s‘ کو 26 سال کے بعد ایک بار پھر متحرک کرنے کے ساتھ انہیں چوبیس گھنٹے ہمہ وقت تیار رکھنے کے احکامات دیے گئے ہیں۔
اخبار’واشنگٹن ٹائمز‘ نے جریدہ ‘ڈیفنس ون‘ کے حوالے سے بتایا ہے کہ جوہری بم گرانے کے لیے تیار کیے گئے بھاری بھرکم امریکی جنگی جہاز ’بی باون‘ کو چوبیس گھنٹے کی الرٹ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ سنہ 1991ء کی سرد جنگ کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب ان طیاروں کو الرٹ کیا گیا ہے۔
جریدہ ’ Defense One‘ کے صحافی مارکوس ویسگیربر نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ امریکا کے ’B-52s‘ بمبار طیاروں کو فوری پرواز کے لیے الرٹ کردیا گیا ہے۔ آج سے چھبیس سال پیشتر ان طیاروں کو سرد جنگ کے کسی بھی حملے کے لیے تیار رکھا گیا تھا۔
امریکی صحافی کا کہنا ہے کہ ’بی باون‘ جنگی طیاروں کے رن ویز کو گذشتہ تین عشروں سے استعمال نہیں کیا گیا۔ تاہم اب امریکا کے بعض ہوائی اڈوں پر ان طیاروں کے لیے مختص رن ویز کو تبادہ تیار کیا جا رہا ہے تاکہ کسی بھی ہنگامی صورت میں یہ طیارے فضاء میں اڑان بھرنے کے لیے تیار رہیں۔
امریکی فضائیہ کے چیف جنرل ڈیوڈ گولڈفین کا کہنا ہے کہ ان جنگی طیاروں کو تیار رکھنے کا مقصد فضائیہ کی ہنگامی حالت میں تیاری کو یقینی بنانا ہے۔
امریکی فضائیہ کے چیف کا یہ بیان بارکسڈال اور دوسرے اڈوں کے چھ روزہ دوروں کے دوران فوجی قیادت سے ملاقات کے دوران سامنے آیا ہے۔ مذکورہ فوجی اڈے جوہرہ مہمات کے لیے قائم کیےگئے ہیں۔
فضائیہ کی طرف سے جوہری بمبار طیاروں کو الرٹ کرنے کے احکامات دیے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اسٹریٹیجک کمانڈ[STRSTCOM] کے سربراہ جنرل لوری روبنسن، یا نارتھ کمانڈ کے چیف کی طرف سے بھی ایسے احکامات صادر کیے جا سکتے ہیں کیونکہ مذکورہ دونوں کمانڈز فوج کے ایٹمی امور کے نگران ہیں۔
امریکی صحافی ویسگیربر کا کہنا ہے کہ ’B-52s‘ کو الرٹ کرنے کی تیاری کوتیزی کے ساتھ تبدیل ہوتے جیو پولیٹیکل حالات کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ ان تبدیل ہوتے حالات میں شمالی کوریا کے جوہری ہتھیاروں کے حصول کی کوشش اور پیانگ یانگ کے خلاف صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جارحانہ پالیسی بھی اہمیت رکھتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ روس کی فوجی اور عسکری قوت میں اضافہ بھی امریکا کے لیے باعث تشویش ہے۔