فلسطینی صدر محمود عباس نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا القدس (یروشلیم ) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا فیصلہ ایک عظیم جرم ہے اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔اس کے بعد امریکا کو اب مشرق وسطیٰ امن مذاکرات میں کوئی کردار نہیں ادا کرنا چاہیے۔
وہ استنبول میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے ہنگامی سربراہ اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔انھوں نے کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے القدس کے ساتھ تو ایسا معاملہ کیا ہے جیسے یہ کوئی امریکی شہر ہو ۔ القدس فلسطین کا دارالحکومت ہے اور یہ ہمیشہ اس کا دارالحکومت ہی رہے گا۔
فلسطینی صدر نے کہا کہ واشنگٹن اب دیانت دار مصالحت کار نہیں ہوسکتا۔سیاسی عمل میں اب امریکا کے کسی کردار کو قبول نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس نے اسرائیل کے حق میں متعصبانہ طرز عمل اختیار کیا ہے۔انھوں نے مسلم لیڈر وں سے مخاطب ہوکر کہا کہ یہ ہمارا موقف ہے اور ہم یہ امید کرتے ہیں کہ آپ ہماری حمایت کریں گے۔
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے او آئی سی کا بدھ کو یہ ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے۔اجلاس میں پچاس سے زیادہ ممالک کے سربراہان ریاست اور وزرائے خارجہ شریک ہیں۔ ترک صدر نے اپنی تقریر میں امریکا کو مقبوضہ بیت المقدس کے بارے میں نئے فیصلے پر کڑی تنقید کا نشانہ بنا یا ہے۔
انھوں نے کہا کہ’’ میں بین الاقوامی قانون کی حمایت کرنے والے تمام ممالک کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ مقبوضہ القدس کو فلسطین کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرلیں‘‘۔
انھوں نے ٹرمپ کے گذشتہ ہفتے کے فیصلے کو اسرائیل کی فلسطینی سرزمین پر قبضے ، وہاں یہود کی آبادکاری ، فلسطینیوں کے خلاف تشدد کے غیر متناسب استعمال اور ہلاکتوں ایسے اقدامات کا انعام قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسرائیل ایک قابض اور دہشت گرد ریاست ہے۔
سربراہ اجلاس سے قبل ترک وزیر خارجہ مولود شاوس اوغلو نے کہا کہ مسلم اقوام کو دنیا پر یہ زور دینا چاہیے کہ وہ مشرقی القدس کو ریاست فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کرے اور یہ ریاست 1967ء کی سرحدوں کے اندر تسلیم کی جانی چاہیے۔