کیا بھوک سےلوگوں کی اموات عام سی بات ہے؟ اس سوال کے ساتھ فلسطینی اسامہ حامد نے پوری دنیا کیخاموشی اور بے حسی کے شکار حکمرانوں سے غزہ کی پٹی میں جاری نسل کشی کے اسرائیلیجرائم پر توجہ دلائی ہے۔
شمالی غزہ کی پٹیمیں اس وقت قحط کا عالم ہے اوربچے، بوڑھے، خواتین، شیرخوار سب بھوکے مررہےہیں۔
حمد نےمرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار کو بتایا کہ یہاں شمالی غزہ میں ہر روز لوگ بھوک،جی ہاں، بھوک اور خوراک کی کمی کی وجہ سے مرتے ہیں۔ ان لوگوں کے بارے میں کوئی کچھنہیں جانتا کیونکہ وہاں نہ کوئی میدیا ہے اور کوئی ادارہ جو ان واقعات کو دستاویزنہیں کرسکتے۔
غزہ کی پٹی پراسرائیل کی خونریز جنگ کے آغاز کے 139 دن بعد قابض اسرائیلی فوج نے غزہ اور اس کےشمال پر اپنا محاصرہ سخت کر دیا۔ قابض فوج نے کسی بھی قسم کی امداد کا شمالی غزہمیں داخل بند کردیا ہے اور بھوک اور قحط کی سطح خوفناک حد تک پہنچ گئی۔
حامد نے وضاحت کیکہ یہاں تک کہ جانوروں کا چارہ بھی ختم ہو گیا ہے۔ یہاں آپ کو ہر دو یا تین دن میںبمشکل محدود کھانا ملتا ہے۔ ہم جڑی بوٹیوں اور گھاس پھوس پر انحصار کرتے ہیں اورآلودہ پانی کو نمک کے ساتھ ملا کر پیتے ہیں۔
حالات کب بہتر ہوں گے کہ ہم امداد پہنچا سکیں؟
اس گھمبیر بحرانکے درمیان ورلڈ فوڈ پروگرام نے منگل 20 فروری 2024 کو "ایکس” پلیٹ فارمپر اپنے آفیشل اکاؤنٹ پر ایک ٹویٹ میں اعلان کیا کہ اس نے محصور شمالی غزہ کی پٹیمیں انسانی امداد پہنچانے کی تین دن کوشش کے بعد اس نے امداد لانےکی کوشش بند کردیہے۔
فورڈ پروگرام کااستفسار ہے کہ حالات کب پرامن ہوں گے کہ ہم غزہ کی پٹی کے شمالے حصےمیں بھوکےپیاسے لوگوں تک امداد پہنچا سکیں گے۔
اس سے قبل اسرائیلیقابض فوج کی طرف نے غزہ شہرکے جنوب مغرب میں ساحلی سڑک پر ایک امدادی ٹرک کو محصورعلاقے میں داخل ہونے سے پہلے بمباری کرکے تباہ کردیا گیا تھا۔
ورلڈ فوڈ پروگرامکا بیان یونیسیف کے اسی دن کے بیانات کے بعد سامنے آیا جس میں اس نے کہا تھا کہغزہ کی پٹی کے جنوب میں واقع رفح میں 600000 بچوں کو موت کا خطرہ لاحق ہے، جو بغیرخوراک اور ادویات کے اور شہر کے کیمپوں میں انتہائی خطرناک حالات میں زندگی گذاررہے ہیں۔
شمال اور جنوب کےدرمیان سیکڑوں ہزاروں لوگوں کا مستقبل اور ان کی ندگیاں تاریکی میں ڈوبی ہوئی ہیں۔یہ لوگ بدترین قحط کے خطرے سے دوچار ہیں اور غزہ کی پٹی میں بھوک اور خوراک کی کمیکی وجہ سے مررہے ہیں۔
قحط کیسے شروعہوا؟
غزہ پر اسرائیلیجارحیت کے آغاز کے 48 گھنٹے بعد اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گیلنٹ نے غزہ کی پٹی میںخوراک، پانی اور ایندھن کے داخلے کو روکنے کے اپنے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے شروعسے ہی اعلان کیا۔ اسس کے بعد اسرائیلی ریاست غزہ کی پٹی میں بھوک اور قحط کو ایکجنگی حربے کے طور پر استعمال کررہی ہے۔
قابض افواج نےغزہ کی پٹی کے ساتھ تمام گزرگاہوں کو بند کر دیا، جن میں روزانہ 600 ٹرک کارم ابوسالم کراسنگ سے داخل ہو رہے تھے۔ مصری عریش ہوائی اڈے تک پہنچنے والی انسانی امدادکو پورے 15 دنوں تک روک دیا گیا۔اب جو امداد غزہ کی پٹی میں پہنچ رہی ہے وہ کلآبادی کی ضروریات کا ایک فی صد بھی پورا نہیں کرتی۔
قابض فوج نے 27اکتوبر 2023 کو شمالی غزہ کی پٹی پر اپنی زمینی جارحیت شروع کی، امداد کے باقاعدہداخلے کی اجازت دینے کے چند دن بعد اسے جنوبی غزہ کی پٹی میں خان یونس تک محدودرکھا۔