ایک بے کار اورفضول چیز کو جتنا مرضی خوبصورت نام اور ٹائٹل دیا جائے اور اسے لوگوں میں مرغوب بنانے کی جتنی مرضی سعی کی جائے وہ بہر حال بے کار ہی رہے گی۔ اسے خوبصورت نام دینے کارآمد نہیں بنایا جاسکتا۔
ان دنوں امریکا کے مشرق وسطیٰ کے لیے مجوزہ امن منصوبے’صدی کی ڈیل‘ کے کافی چرچے ہیں۔ گوکہ امریکیوں نے ابھی تک اس حوالے سے کوئی تفصیل جاری نہیں کی ہے۔ میڈیا میں اس کے بے پناہ چرچے اور سیاسی محلفوں پر اس پر تبصرہ آرائی کی جاتی ہے۔
یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ آیا میڈیا کے ذریعے لیک ہو کرآنے والی معلومات ہی ’صدی کی ڈیل‘ میں شامل ہیں یا یہ ھنوز پردہ رازمیں ہے۔ اس کے انکشاف کے بعد رد عمل کیا ہوگا۔ خطے کے فریقین اس کے ساتھ کیسے نمٹیں گے۔کیا اس کا استقبال ایک نومولود کی طرح کیا جائےگا؟
چاہے جو کچھ بھی ہو۔ یہ بات طے ہے کہ ’صدی کی ڈیل‘ فریقین یا کم سے کم فلسطینیوں کے لیے قابل قبول اور تاریخ ساز فارمولا نہیں ہوگا جس میں صہیونی ریاست کے ساتھ جاری ہماری کشمکش کو اصولی طریقے سے ختم کرنے کی کوئی بات کی جائے گی بلکہ ہم قضیہ فلسطین کو ختم کرنے کے ایک نئے سازشی منصوبے کا سامنا کرنے والے ہیں۔
صدی کی ڈیل فریقین کے درمیان باہمی مشاورت سے طے پانے والا منصوبہ نہیں بلکہ متکبر امریکا اور اس کے پالتو اسرائیل کی سازشی اسکیم ہے جس میں لسطینی قوم پر صہیونیوں کے ارادے اور مذموم عزائم مسلط کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
اس طرح کے امن فارمولوں کی جو بھی تفصیلات ہوں اور انہیں چسکے دار عنوانات سے مزین کرنے کی کوشش کی بھی جائے مگر وہ تاریخ ساز نہیں بلکہ مخصوص لابی اور گروپ کی سازش کو مسلط کرنے کی کوشش ہوگی۔
یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ ‘صدی کی ڈیل‘ کوئی نئی اصطلاح ہرگز نہیں۔ سنہ 2006ء میں جب ایہود اولمرٹ صہیونی وزیراعظم تھے تو ’اولمرٹ ۔ محمود عباس مفاہمت‘ کافی مشہور ہوا۔ اس مجوزہ خفیہ پلان کی جو تفصیلات سامنے آئیں ان میں بتایا گیا کہ اسرائیل میں نئے انتخابات کے بعد فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان کسی امن معاہدے کی اہم پیش رفت ہونے والی ہے۔ مگر وہ انتخابات جیسا کہ اولمرٹ کی مرضی اور منشا تھی نہیں ہوئے۔
’صدی کی ڈیل‘ کی طرز پر سنہ 2010ء میں اسرائیلی قومی سلامتی کے مشیر جیورا آئلنڈ نے ایک فارمولے کی تجویز پیش کی اوراسے قضیہ فلسطین کا ممکنہ حل بتایا گیا مگر اس کی تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔
ایک فارمولہ ’اردن/ فلسطین وفاق‘ کے نام سے سامنے آیا۔ اس میں اردن کی طرز پر تین ریاستوں مشرقی غرب اردن، مغربی غرب اردن اور غزہ پر مشتمل تین ریاستیں تجویز دی گئیں۔
دوسرا یہ’علاقوں کا تبادلہ‘ جس میں تجویز دی گئی کہ مصر جزیرہ نما سیناء کے 720 مربع کلو میٹر کے علاقے کو فلسطینیوں کے لیے چھوڑ دے گا۔ یوں یہ ریاست مستطیل کی شکل میں رفح سے العریش شہر تک 24 کول میٹر طویل اور 30 کلو میٹر چوڑی ہوگی۔ یہ رقبہ مقبوضہ مغربی کنارے کے کل رقبے کا 12 فی صد بنتا ہے۔ حال ہی میں اسرائیل نے غرب اردن کو بھی ضم کرنے کے لیے اقدامات شروع کردیے ہیں۔
مصر کو جزیزہ سینا کے کچھ حصے کے بدلے میں سنہ 1948ء کی جنگ میں قبضے میں لیے گئے جزیرہ نما النقب کے جنوب سے اتنا رقبہ وادی فیران سے الاٹ کیا جائے گا۔ اس تبدیلی کا مصر کو ایک فائدہ یہ ہوگا کہ وہ وہاں سے 10 کلو میٹر کی ایک سرنگ کے ذریعے اردن تک پہنچ سکے گا۔ صرف سنگ نہیں بلکہ مصر وہاں پر ریلوے لائن، تیل پائپ لائن اور سڑکیں بھی تعمیر کرسکے گا اور وہاں سے حاصل ہونے والا ٹیکس مصر کو ملے گا۔
اس منصوبے کے تحت غزہ کے فلسطینیوں کو جزیرہ نما سیناء تک پھیلنے کا موقع ملے گا۔ انہیں ایک عدد ہوائی اڈہ اور ایک بندرگاہ کی بھی سہولت ہوگی۔ بحرمتوسط کی اس بندرگاہ سے اردن بھی مستفید ہوگا اور اس کےخلیجی ملکوں، عراق اور یورپی ممالک تک آبی رسائی آسان ہوجائے گی۔ اس کے علاوہ اردن کو غزہ کے 70 ہزار فلسطینیوں کو واپس کرکے ان کا بوجھ اتارنے کا موقع ملے گا جب کہ دوسری طرف غرب اردن اور دیوار فاصل کے دونوں اطراف کے علاقے اسرائیل میں ضم کردیے جائیں گے۔
زمین کے تبادلے کے اس فارمولے کو آگے بڑھانے کے لیے وادی عقبہ میں 21 فروری 2016ء کو امریکی صدر باراک اوباما کے دور میں ایک اہم ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کا انکشاف 19 فروری 2017ء کو اسرائیلی اخبار ’ہارٹز‘ نے پردہ چاک کیا۔ اس میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو، مصری صدر عبدالفتاح السیسی، اردنی فرمانروا شاہ عبداللہ دوم اور امریکی سیکرٹری خارجہ جان کیری شریک تھے۔ انہوں نے جزیرہ نما سیناء کا کچھ حصہ فلسطینیوں کو دینے پر رضامندی کا اظہار کیا اور اسے قضیہ فلسطین کا ’حتمی حمل‘ کرانے کی کوشش کی گئی۔
اس اجلاس میں نیتن یاھو نے فلسطینیوں کے ساتھ اعتماد سازی کےاقدامات کی تجویز پیش کی اور کہا کہ وہ معاہدے کی صورت میں خلیجی ملکوں سے تعلقات کے عوض اقتصادی سہولیات دینے کو تیار ہیں۔ جان کیری نے اسرائیل کو ’یہودی ریاست‘ تسلیم کرانے کے نظریات پر بات کی اور فلسطینیوں کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر زور دیا۔
اس کے بعد حسب معمول نیتن یاھو نے غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کیا اور یہ منصوبہ بھی کھٹائی میں پڑ گیا۔ فلسطینی اتھارٹی جو پہلے ہی ایسی کسی ڈیل کے حوالے سے پس وپیش میں تھی منظر ہی سے غائب ہوگئی۔
20 ستمبر 2017ء کو امریکی اخبار ’واشنگٹن ٹائمز‘ نے ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے بعد محمود عباس کا ایک بیان نقل کیا جس میں انہوں نے بتایا کہ ڈونلڈ ٹرمپ مشرق وسطیٰ کے تنازع کے حل کے لیے ’صدی کی ڈیل‘ کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ بعد میں امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے داماد گریڈ کوشنر اور اسرائیل نواز یہودی جیسن گرین بیلٹ کو فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان میل ملاقات کے لیے متعین کیا۔ یہ دونوں شخصیات آٹھ ماہ میں 20 سے زاید بار اسرائیل اور فلسطینی قیادت سے ملے۔
کوشنر اور گرین بیلٹ نے مصر، اردن، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات کے ساتھ فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیلی قیادت سے ملاقاتیں جاری رکھیں تاکہ ’پرامن تصفیے‘ کے لیے علاقائی سطح پر ماحول ساز گار بنایا جاسکے۔
تنظیم آزادی فلسطین کے رُکن احمد مجدلانے نو جنوری 2019ء ایک بیان میں بتایا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ’صدی کی ڈیل‘ کے جس منصوبے کی بات کرتے ہیں اس کا مقصد قضیہ فلسطین کا مکمل طورپر تصفیہ کرنا ہے۔ امریکا نے اپنے امن منصوبے کے بارے میں سعودی عرب کو آگاہ کردیا ہے، بہ الفاظ دیگر امریکا سعودی عرب کے توسط سے اپنا فارمولہ مسلط کرنا چاہتا ہے۔ کیونکہ امریکی منصوبے کی تفصیلات سعودی عرب ہی کے ذریعے فلسطینیوں تک پہنچی ہیں۔
امریکی فارموملے میں یہ بات شامل کی گئی کہ قضیہ فلسطین کے تصفیے کے بعد سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین صہیونی ریاست کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرلیں گے۔ یہ ممالک مل کر فلسطینی اتھارٹی کو اپنے حصار میں لیں گے جو ایران اور انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے سعوعدی عرب کی قیادت میں اسرائیل کی صف میں کھڑے ہو جائیں گے۔
’صدی کی ڈیل‘ جیورا آئلنڈ کے نظریات سے مختلف نہیں۔ دونوں میں دوطرفہ اعتماد سازی کے لیے طویل وقت کی بات کی گئی، فلسطینیوں بالخصوص غزہ کی پٹی کے مجاھدین کو غیر مسلح کرنے اور ایک ایسی فلسطینی عبوری ریاست جس کا قیام کئی سال کے طویل مذاکرات کی مرہون منت ہوگا۔ اس دوران اسرائیل اور اس کے سرپرست فلسطینیوں کا چال چلن بھی دیکھیں گے۔ اگر فلسطینی اعتماد پر پورا اترتے رہےتو عین ممکن ہے انہیں چند مزید داخلی سطح پر آزادیاں یا اقتصادی مراعات مل جائیں ورنہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا فارمولہ ہی چلے گا۔
اس کے بعد فلسطینیوں کے ساتھ تبادلہ اراضی کا مرحلہ شروع ہوگا۔ فلسطینی اتھارٹی اور تنظیم آزادی فلسطین کو غرب اردن کے 88 فی صد رقبے سے دست بردار ہوکر فقط 12 فی صد پر اکتفا کرنا ہوگا۔ غرب اردن اور وادی اردن اسرائیل میں ضم ہوجائیں گے۔ یہی منصوبہ جیورا ائیلنڈ نے پیش کیا جس میں غزہ کو جزیرہ نما سیناء تک وسعت دی گئی۔
چند داخلی مراعات کے سوا عبوری فلسطینی ریاست اور کوئی حق نہیں دیا جائے گا۔ فلسطینی ریاست کا بری، بحری اور فضائی کنٹرول اسرائیل کے ہاتھ میں رہے گا۔ القدس اور فلسطینی پناہ گزینوں کے مسائل نظرانداز کردیے جائیں گے۔ یوں فلسطینیوں کو داخلی خود مختاری کے باوجود اسرائیل کا باجگزار اور صہیونیوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جائےگا۔
بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا ٹرمپ کا فیصلہ’صدی کی ڈیل‘ کا حصہ ہے۔ امریکا اور اسرائیل کو عرب اور مسلمان ممالک کی طرف سے اس پر آنے والے رد عمل کی توقع نہیں تھی۔
جہاں تک سعودی عرب کا تعلق ہے تو اس نے سرکاری سطح پر ٹرمپ کے اعلان القدس کی مخالفت ضرور کی مگر جب پوری اسلامی دنیا کی مساجد میں القدس کی حمایت میں قراردادیں اور ٹرمپ کے اعلان القدس کے خلاف مذمتی بیانات جاری تھی مسجد حرام کے امام اورخطیب دور دور تک بھی القدس کا کوئی تذکرہ نہیں کیا۔ حتیٰ کہ اس دن ان کے خطاب کا موضوع والدین کے ساتھ حسن سلوک ٹھہرا۔ احتجاج تو سب نے کیا مگر اسرائیل سے سفارتی تعلقات رکھنے والے کسی مسلمان یا عرب ملک نے تعلقات ختم نہیں کیے۔ سفارتی درجہ کم کیا اور نہ ہی سفیروں کو واپس بلایا گیا۔
یہ ظاہر ہے کہ صہیونیوں اور امریکیوں کو اپنے عزائم کو آگے بڑھانے اور مشرق وسطیٰ بالخصوص فلسطینی قوم پر مسلط کرنے کے لیے موجودہ وقت نہایت مناسب موقع ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب عالم اسلام انتشار کا شکار اور فلسطینی قوم بھی دھڑوں تقسیم ہے۔ عرب ملکوں میں خون خرابے، فرقہ واریت اور طوائف الملوکی کی دیوار مسلسل بلند سے بلند تر ہو رہی ہے۔
اس کے باوجود فلسطینی قوم نا امید اور مایوس ہرگز نہیں۔ مسلمانوں اور فلسطینیوں کی طویل تاریخ ہے اور صہیونی صرف موسمی بٹیرے ہیں۔ دوام صرف اسلام مسلمانوں اور فلسطینی قوم کو حاصل ہوگا۔ آج نہیں تو کل صدی کی ڈیل جیسے مذموم عزائم اپنے بدتر انجام کو پہنچیں گے۔
مگر اس کے لے فلسطینی قوم کو کچھ کام کرنا ہوں گے۔ فلسطینیوں کو اپنے دیرینہ حقوق، مطالبات اور اصولوں پرقائم رہنا ہوگا۔ فلسطینی اپنے کسی ایک معمولی حق سے بھی دست بردار نہ ہوں۔ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں۔ فلسطینی اندرون اور بیرون ملک متحد ہونے کے ساتھ پوری مسلم کہ کے ساتھ شامل ہوجائیں۔ اوسلو معاہدہ پیچھے جا چکا۔ فلسطینیوں کو اپنے مستقبل کا تعین خود کرنا ہوگا۔ عالم اسلام کے ساتھ مل کر فلسطینی قوم عظیم طاقت بن سکتے ہیں۔