فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس اپنے آمرانہ فیصلوں اور اقدامات پر بدستور عمل پیرا ہیں۔ اُنہوں نے 30 اپریل کو فلسطین نیشنل کونسل کا اجلاس طلب کرکے ایک بار پھر یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ فلسطین میں قومی اتفاق رائے کے بجائے قومی نوعیت کے فیصلوں کے لیے اپنی ذاتی رائے مسلط کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
ممکن ہے تیس اپریل دو ہزار اٹھارہ کا نیشنل کونسل کا اجلاس نئی فلسطینی قیادت کے چناؤ کی بھی کوشش کرے گا۔ کونسل کے بعض نئے ارکان کا انتخاب عمل میں لانے کے ساتھ ساتھ محمود عباس کے جانیشنوں کا بھی انتخاب عمل میں لایا جاسکتا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق فلسطینی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ محمود عباس اپنے سیاسی آمرانہ فیصلوں کو نافذ کرنے کے لیے نیشنل کونسل پر اپنی گرفت قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ نیشنل کونسل کے بعض ارکان وفات پاچکے ہیں۔ کئی بڑھاپے میں جو اس وقت عضو معطل ہوچکے ہیں۔
کورم کی کمی
محمود عباس کے ایک معاون کا کہنا ہے کہ کونسل کا ایک سینیر رکن غسان الشعکہ گذشتہ ماہ انتقال کرگئے جب کہ دو ارکان محمد زھدی النشاشیبی اور عبدالرحیم ملوح بڑھاپے کی وجہ سے کونسل کے اجلاس میں شرکت نہیں کرسکیں گے۔ یوں فلسطین نیشنل کونسل کا کورم پورا کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کونسل کا کوئی ایک رکن بھی غیر حاضر ہوا تب بھی قانونی طور پر اجلاس کا کورم متاثر ہوگا۔
خیال رہے کہ تنظیم آزادی فلسطین ’پی ایل او‘کے چیئرمین سلیم الزعنون نے ہے کہ صدر محمود عباس کی ہدایت پر فلسطین نیشنل کونسل کا اجلاس 30 اپریل 2018ء کو رام اللہ میں بلایا گیا ہے۔
اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ اور اسلامی جہاد نے نام نہاد فلسطین نیشنل کے جلاس کو غیرقانونی قرار دے کر مسترد کردیا ہے۔
نئی قیادت
لندن سے شائع ہونے والے اخبار ’الحیات‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ فلسطینی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ تیس اپریل کو ہونے والے فلسطین نیشنل کونسل کے اجلاس میں نئی قیادت کا چناؤ بھی عمل میں لایا جائے گا۔ ان میں تحریک فتح کی مرکزی کمیٹی کے ارکان بھی شامل کیے جائیں گے۔ تحریک فتح کے وہی ارکان صدر محمود عباس کے جانیشین بن سکتے ہیں۔
فلسطین اوراسرائیل کے سیاسی اور ابلاغی حلقے یہ توقع کررہے ہیں صدر محمود عباس آئندہ دنوں میں فلسطینی اتھارٹی کی قیادت سے استعفیٰ دے سکتے ہیں۔
عبرانی ٹی وی 20 نے نے فلسطینی اتھارٹی کے سینیر عہدیداروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ ابو مازن آنے والے دنوں میں اپنے جانشین کا اعلان بھی کرسکتے یہں۔
عبرانی ٹی وی کا کہنا ہے کہ صدر محمود عباس خرابی صحت کی وجہ سے عہدے سے استعفےٰ دے سکتے ہیں۔ انہوں نے اپنا طبی معائنہ کرنے کی بھی درخواست دی ہے۔
پرانے چہرے
بعض فلسطینی رہ نما تنظیم آزادی فلسطین اور نیشنل کونسل کے آئندہ کےاجلاس سے سبکدوش ہوسکتے ہیں۔ ان میں تنظیم آزادی فلسطین کے سیکرٹری یاسر عبد ربہ بھی سر فہرست ہیں۔
عبد ربہ کے محمود عباس سے اختلافات جاری ہیں اور دو سال سے وہ تنظیم آزادی فلسطین کے اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ محمودعباس نے عبد ربہ کو ہٹا کر صائب عریقات کو ان کی جگہ پی ایل او کا سیکرٹری لگایا گیا۔
صائب عریقات کو اس عہدے پر فائز کرکے محمود عباس نے ’پی ایل او‘ پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے۔
اجلاس میں90 سالہ محمد زھدی النشاشیبی ، احمد قریع، زکریا الآغا، علی اسحاق اور عبدالرحیم جیسے ارکان کو فارغ کیا جائے گا۔
نئے چہرے
محمود عباس کے متوقع جانشینوں میں تنظیم آزادی فلسطین کی مرکزی کمیٹی کے ارکان جبریل رجوب، محمود العالول اور محمد اشتیہ جیسے نام شامل ہیں۔
یہ تینوں شخصیات محمود عباس کے مقربین میں شامل ہیں۔ جبریل رجوب فلسطین نیشنل سیکیورٹی کے چیف رہے ہیں۔ وہ فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے محمود عباس کی بھرپور حمایت کرتے رہے ہیں۔
العالول کو تحریک فتح کے نائب چیئرمین کے عہدے پرفائز کیا گیا۔ وہ فی الحال فلسطینی اتھارٹی سے مربوط نہیں ہیں۔
العالول نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے القدس کے بارے میں اعلان کی شدید مذمت کی۔ انہوں نے فلسطینی اتھارٹی کے اسرائیل کے ساتھ طے پائے تمام معاہدے ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی قوم القدس اور اپنے وطن کی مٹی کے لیے ہرقربانی دینے کے تیار رہے۔
محمد اشتیہ نے فلسطین الیکشن کمیشن کے سیکرٹری جنرل کے عہدے پر خدمات انجام دی ہیں۔ سنہ 1996ء میں پارلیمانی انتخابات میں وہ فلسطینی الیکشن کمیشن کے سربراہ رہے۔ اس کے علاوہ 11 نومبر 2013ء کو اسرائیل کے ساتھ مذاکراتی وفد میں شامل رہے ہیں۔