مسجد اقصیٰ کی حفاظت ایک عظیم الشان اور غیر معمولی اہمیت کی حامل ذمہ داری ہے۔ یہ ذمہ داری ادا کرنے والے فلسطینی اور دوسرے ملکوں کے محافظین صہیونی ریاست کی انتقامی کارروائیوں کا سامنا کرنے کے باوجود قبلہ اول سے جدا نہ ہونے کے عزم پر قائم رہے۔
انہی میں ایک 93 سالہ حسن الاغدرلی ہیں۔ اغدرلی کا تعلق ترکی سے ہے مگر ان کی زندگی کا ایک بڑا حصہ مسجد اقصیٰ کی حفاظت میں گزرا۔ صہیونی حکام نے بوڑھے اغدرلی کو القدس چھوڑنے اور مسجد اقصیٰ سے دور کرنے کے لیے طرح طرح کے حربے آزمائے مگر اس نے صہیونی ریاست کا تمام تر دباؤ مسترد کرتے ہوئے اپنی زندگی قبلہ اول کے لیے وقف کر دی تھی۔
مرکز اطلاعات فلسطین نے خلافت عثمانی کی قبلہ اول میں آخری زندہ یادگار یعنی حسن الاغدرلی کی زندگی اور ان کے قابل تحسین عزم پر روشنی ڈالی ہے۔
اغدرلی کا کہنا ہے کہ انہیں بار بار اسرائیلی حکام مسجد اقصیٰ سے نکال دیتے ہیں اور کہتے کہ اپنے ملک ترکی چلے جاؤ مگر میں ترکی نہیں جانا چاہتا۔ میں نے زندگی کا ایک بڑا حصہ قبلہ اول کی حفاظت میں گذرا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا قبلہ اول سے دور کیوں نہیں ہونا چاہتے تو ان کا کہنا تھا کہ اگر میں مسجد اقصیٰ چھوڑ دی تو میرے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے خفا ہوں گے اور کہیں گے کہ میں نے حرمین کے بعد تیسرے مقدس ترین مقام کو تنہا کیوں چھوڑ دیا۔ میں دنیا سے جانے کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا منہ دکھاتا۔
خایل رہے کہ حسن الاغدر خلافت عثمانیہ کے دور کے سپاہی تھے۔ انہوں نے سنہ 1982ء میں اپنے ملک نہیں بلکہ دنیا سے آخرت کی طرف کوچ کیا۔ ان سے سنہ 1972ء میں صحافی الھان بارداقجی نے ملاقات کی اور ان سے ہونے والی ملاقات کو اپنی یاداشتوں میں بیان کیا۔ یاداشتوں کے اس باب کو ’میں نے ان سے مسجد اقصیٰ میں ملاقات کی‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔
بار داقجی کا کہنا ہے کہ وہ بیت المقدس میں گھومتے گھومتے مسجد اقصیٰ کے دروازے بالخصوص ’12 ہزار قندیل‘ گیلری کے سامنے پہنچے۔ یہ جگہ سلطان یاورز سلم نے 30 اکتوبر 1517ء کو مسجد اقصی کا حصہ بنائی تھی۔ انہوں نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا تھا کہ وہ مسجد اقصیٰ میں ایک ایک شمع روشن کریں۔ اس وقت وہاں پر 12 ہزار ترک فوجی تھے، ان میں سے ہر ایک نے ایک ایک شمع روشن کی۔ یہی وجہ ہے کہ بعد میں اس جگہ کو ’12 ہزار قندیل‘ کا نام دیا گیا۔ ان شمعوں کی روشنی میں ان بارہ ہزار فوجیوں نے عشاء کی نماز ادا کی۔
باردقجی لکھتے ہیں کہ مسجد اقصیٰ کے ایک دوسرے دروازے پر ان کی ملاقات حسن آفندی سے ہوئی۔ اس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ مجنوں ہیں۔ وہ کئی سال تک وہاں پر مورتی کی طرح کھڑے رہے۔ وہ مسجد کے سوا کسی کی طرف نہیں دیکھتے اور نہ کسی سے بات کرتے تھے۔ میں نے ان سے ترکی میں سلام کیا تو انہوں نے فصیح اناطولوی زبان میں جواب دیا۔ یہ زبان سن کر صحافی کو جیسے جھٹکا لگا اور اس کا تعارف پوچھا۔
العریف حسن کے سرپرائز میں سے ایک یہ ہے کہ جب خلافت عثمانہ کا سقوط ہوا اور القدس شہر میں انگریز فوج داخل ہوئی تو انگریز فوج نے ترک فوج کے ساتھ وہی ناروا سلوک کیا جو ایک فاتح اپنے مفتوح کے ساتھ کرتا ہے۔ انہوں نے شہر میں بڑے پیمانے پر لوٹ مار اور قتل عام کیا۔ ترک فوجیوں میں ایک حسن بھی شامل تھے جو ترک فوج کے بریگیڈ 20 میں تھے۔ انہوں نے واپس ترکی جانے سے انکار کردیا تھا۔
ترکی کے ایک اور محافظ نے کہا کہ ہم القدس میں اس لیے رک گئے کہ ہماری فلسطینی بھائی تنہا ہوگئے تھے۔ خلافت عثمانیہ نے ہمیں چھوڑ دیا تھا۔ ہم نے یہ تہیہ کہ ہم نبی مہربان کو صدمہ نہیں پہنچائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ کئی سال تک صہیونی ان کا پیچھا کرتے رہے۔ بیت المقدس میں بچ جانے والے ترک فوجی ایک ایک کرکے اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اس وقت ان کی تعاداد ترپن تھی۔ دشمن نہیں قتل نہیں کرسکا۔
ترک صحافی کا کہنا ہے کہ حسن نے اس سے کہا کہ بیٹے جب تم ترکی جاؤ گے تو سنجق توکات گاؤں ضرور جانا۔ وہاں پر ایک کیپٹن نقیب مصطفیٰ ہوگا۔ اسے میرا سلام کہنا۔ اس نے مجھے مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ اس نے مجھے یہ امانت سونپی۔ مصطفیٰ سے کہنا کہ حسن الاغدرلی ابھی تک مسجد اقصیٰ کی حفاظت پر مامور ہے اور اس نے اپنی ذمہ داری ترک نہیں کی۔
حسن الاغدرلی کا وطن واپس نہ جانا قبلہ اول سے والہانہ محبت کا واضح ثبوت ہے۔ وہ سنہ 1982ء میں دنیا سے رخصت ہوئے اور وہ مسجد اقصیٰ میں ترک دور کے آخری محافظ تھے۔