شنبه 16/نوامبر/2024

شام میں اسرائیلی کارروائیوں کو روس کی درپردہ حمایت حاصل؟

جمعہ 11-مئی-2018

ایک ایسے وقت میں جب اسرائیل نے شام میں ایرانی تنصیبات اور فوجی مراکز کو نشانہ بنانے کا سلسلہ تیز کردیا ہے، اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کا دورہ روس اور صدر ولادی میر پیوتن سےملاقات کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔

اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے ماسکو میں ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ روس شام میں ایرانی مراکز کے خلاف اسرائیلی کارروائی روکنے کے لیے مداخلت نہیں کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ شام میں ہمارے مشن کی راہ میں روس کے حائل ہونے کا کوئی امکام نہیں۔

نیتن یاھو نے مزید کہا کہ کسی بھی خودد مختار ملک کی طرف اسرائیل کو بھی اپنی خود مختاری اور سلامتی کے دفاع کا حق ہے۔ شام میں ایرانی سرگرمیاں اسرائیل کے لیے خطرہ ہیں۔

نیتن یاھو نے بدھ کو ماسکو میں روسی صدر ولادی میر پیوتن سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کے بعد صہیونی فوج نےشام میں حملے تیز کردیے ہیں۔ بالخصوص وادی گولان میں ایرانی فوج اور اسرائیل ایک دوسرے کے ساتھ حالت جنگ میں آگئے ہیں۔

یہ پیش رفت ڈرامائی انداز میں ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب دو روز قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ سنہ 2015ء کو طے پایا جوہری معاہدے سے علاحدگی کا اعلان کردیا تھا۔ اس اعلان کے بعد اسرائیل کی شام میں ایرانی فوج کی موجودگی کے خلاف جارحانہ پالیسی میں مزید شدت آگئی ہے۔

یہاں یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ صدر بشارالاسد کے دفاع کے لیے شام میں موجود روس کیا اپنے حلیف ایران کو شام میں تحفظ فراہم کرے گا اور اسرائیلی بمباری روکنے کے لیے کسی قسم کی مداخلت کی جائے گی۔

جمعرات کو شام کے اندر سےاسرائیل کے زیرتسلط وادی گولان میں 20 میزائل فائر کیے گئے۔ اس کے بعد اسرائیلی فوج نے ایک بیان میں کہا کہ اس نے شام میں موجود ایران کی تمام تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے۔

مختصر لنک:

کاپی