سنہ 2003ء میں امریکا کی عراق پر یلغار کے بعد عراق میں پناہ گزین فلسطینیوں کی مشکلات میں مسلسل اضافہ ہونا شروع ہوا۔ فلسطینی پناہ گزینوں کی مشکلات اور ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
عراق میں فلسطینی پناہ گزینوں کی رابطہ کونسل کے چیئرمین ثامر مشینش کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کو عراق میں منظم فرقہ وارانہ حملوں اور تشدد کا سامنا ہے۔ عراق میں 2003ء میں فلسطینی پناہ گزینوں کی تعداد 27 ہزار تھی جو کہ اب کم ہو کر تین ہزار پر آگئی ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کو دیے گئے انٹرویو میں مشینش نے کہا کہ اس وقت عراق میں صرف تین ہزار فلسطینی پناہ گزین بچے ہیں۔ جب کہ سنہ دو ہزار تین میں یہ تعداد تیس ہزار کے قریب تھی۔ فلسطینی پناہ گزین بغداد، موصول، صوبہ کردستان اور دوسرے شہروں میں قیام پذیر تھے۔ اس وقت بغداد میں 2000، موصل میں 800 اور کردستان میں 200 فلسطینی پناہ گزین موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عراق میں رہنے والے فلسطینیوں کو برسوں تک وہاں کی حکومت نے خصوصی مرعات دی تھیں۔ سنہ 2001ء کے بعد بہ تدریج فلسطینی پناہ گزینوں کو حاصل تعلیمی، طبی اور سماجی مراعات واپس لینے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ عراق کے ریاستی اداروں میں ملازمت کرنے والے فلسطینی پناہ گزینوں کو نوکریوں سے نکال دیا گیا۔
ماضی میں فلسطینیوں کے ساتھ عراقی حکومتیں مقامی باشندوں کی طرح مساوی سلوک کرتی تھیں۔ بہت سے فلسطینیوں کو عراق کی شہریت دی گئی۔ تاہم شہریت کے سوا باقی پناہ گزینوں کو دیگر تمام حقوق میسر رہے ہیں۔ انہیں تعلیم، صحت، روزگار، پنشن، ماہانہ خوراک کارڈ، ٹیکسوں میں چھوٹ، بنکوں سے قرض کے حصول، سفری دستاویزات تک کی سہولت حاصل تھی اور دوسرے ممالک میں قائم عراقی سفارت خانے فلسطینی پناہ گزینوں کے ساتھ عراقی شہریوں کی طرح برتاؤ کرتے تھے۔
اغواء اور گرفتاریاں
مشینش کا کہنا ہے کہ عراق میں سنہ 2005ء کے بعد فلسطینی پناہ گزینوں کی گرفتاریوں اور ان کے اغواء کا ظالمانہ سلسلہ شروع ہوا۔ سنہ 2005ء میں عراق میں ہونے والے ایک بم دھماکے میں چار فلسطینیوں کو ملزم قرار دیا گیا۔ انہیں گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا گیا مگر عدالت نے ان کی بریت ثابت کردی۔ بعد ازاں وہ یورپی ملکوں کو چلے گئے مگر فلسطینیوں کی گرفتاریوں اور اغواء کا سلسلہ بند نہ ہوا۔
عراق میں فلسطین رابطہ کونسل کے سربراہ کا کہنا ہے کہ فلسطینہ پناہ گزینوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ روز کا معمول ہے۔ اس وقت بھی 45 فلسطینی پناہ گزین مختلف ملیشیاؤں کی قید میں ہیں۔ تین ہفتے قبل ایک فلسطینی پناہ گزین کو جعلی الزامات کےتحت حراست میں لیا جس کے بعد وہ کسی نامعلوم مقام پرہے اور اس کی زندگی کے حوالے سے سخت تشویش پائی جا رہی ہے۔
عراقی عدالتیں حراست میں لیے گئے فلسطینی پناہ گزینوں کے خلاف غیرمنصفانہ اور ظالمانہ فیصلے جاری کرتی ہیں۔ ایک فلسطینی پناہ گزین احمد حسنی الشواھنہ کو دہشت گردی کے الزام میں سزائے موت دی گئی حالانکہ ان پر دہشت گردی کا الزام ثابت نہیں ہوسکا۔
سفارت خانے کا منفی کردار
ثامر مشینش نے مرکز اطلاعات فلسطین کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ عراق میں فلسطینی سفارت خانے کا پناہ گزینوں کے تحفظ اور ان کے حقوق کے دفاع کے لیے کوئی قابل ذکر کردار نہیں۔ سفارت خانے کے عہدیدار آمدن، نشستن اور برخواستن کے مصداق اپنی مخصوص سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ انہیں فلسطینی پناہ گزینوں کی مشکلات کا کوئی احساس نہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ امر انتہائی افسوسناک ہے کہ کوئی فلسطینی سفارت کار کسی ایک بھی گرفتار فلسطینی پناہ گزین سے مل سکا اور نہ ہی کسی فلسطینی قیدی کے لیے وکیل کا انتظام کیا گیا ہے۔ سفارت کار فلسطینی شہداء اور اسیران کے اہل خانہ سے ملنے سے بھی قاصر رہے ہیں۔
مشینش کا کہنا ہے کہ عراق میں آنے والی ہرحکومت فلسطینی پناہ گزینوں کے بارے میں نئے اور زیادہ سخت اقدامات کا اعلان کرتی ہے۔ سنہ 2001ء میں ایک قانون منظور کیا گیا۔ آرٹیکل 202 کے نام سے مشہور اس مسودہ قانون میں کہا گیا کہ کسی بھی فلسطینی کے ساتھ ایک عراقی شہری کی طرح برتاؤ کیا جائے گا۔ فلسطینی پناہ گزینوں کو عراق کی شہریت کے سوا باقی تمام شہری مراعات حاصل ہوں گی۔ وہ سیاسی سرگرمیوں اور علمی وسائنسی شعبوں میں بھی کام کرسکیں گے۔
اس کے بعد عراق پرامریکا نے یلغار کی اور فلسطینی پناہ گزینوں کی ایک نئی آزمائش کا آغاز ہوگیا۔ فلسطینی سفارت خانہ بھی اپنے ہم وطن پناہ گزینوں کے مسائل کے حل میں ناکام رہا ہے۔
معاشی بدحالی
فلسطینی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ عراق سےنقل مکانی کرنے یا وہاں پر موجود فلسطینی پناہ گزینوں کو کئی طرح کی مشکلات کا سامنا ہے۔
عراق سے آنے والے فلسطینی پناہ گزینوں کی بڑی تعداد بے روزگار ہے۔ عراق کے اندر بھی یہی صورت حال ہے۔ فلسطینی پناہ گزینوں کے ساتھ انتقامی اور فرقہ وارانہ برتاؤ کیا جاتا ہے۔ بے روزگاری اور غربت میں اضافےنے فلسطینی پناہ گزینوں کی مشکلات بالخصوص معاشی اور مالی بدحالی سے دوچار کردیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ عراق میں امن وامان کی صورت حال میں بہتری آنے کے باوجود فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کوئی فلسطینی عراق میں سرکاری شعبے میں کام نہیں کرسکتا۔ عراق میں کوئی ایسا امدادی ادارہ نہیں جو فلسطینی پناہ گزینوں کی مالی مشکلات میں ان کی مدد کرسکے۔ اگر کوئی ادارہ ایسا کرتا ہے تو اس پر دہشت گردوں کی پشت پناہی کا الزام عاید کردیا جاتا ہے۔