اسرائیلی قابضحکام کی طرف سے حال ہی میں رہا کیے گئے فلسطینی قیدیوں نے اپنے ساتھ برتے گئےناروا سلوک اور ظلم و تشدد کے لرزہ خیز انکشافات کیے ہیں۔
رہائی پانے والوںکا کہناہے کہ دوران حراست نہیں بدترین انسانی حالات میں جسمانی اور نفسیاتی تشددکے ہولناک حربوں کا نشانہ بنایا گیا۔
قابض حکام نےجنوبی غزہ کی پٹی میں کرم شلوم کراسنگ کے ذریعے 114 مرد اور خواتین قیدیوں کو رہاکیا۔ انہیں حال ہی میں اسرائیلی فوج نے غزہ میں مختلف کارروائیوں کے دوران جبریطور پر اغوا کرلیا تھا۔
رہائی پانے والےقیدیوں میں سے 9 کو قابض فوج کی جانب سے وحشیانہ تشدد کے نتیجے میں تشویشناک حالتمیں ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ انہیں غزہ کے یوسف النجار ہسپتال لایا گیا جہاں انکا طبی معائنہ کیا گیا۔
رہائی پانے والےقیدیوں نے اسرائیلی جیلوں میں ان پر ہونے والے ظالمانہ تشدد کی تفصیلات بیان کیں۔ان کے جسموں پر تشدد اور مار پیٹ کے نشانات تھے۔ انہیں پوری حراست کے دوران تشددکا شکار کیا گیا۔
ایک بزرگ محمودالنابلسی نے الجزیرہ سے گفتگو کرتے ہوئے اپنی گرفتاری اور تشدد کی تفصیلات بتاتےہوئے کہا کہ "خان یونس میں الامل محلے میں فوج میرے گھر میں داخل ہوئی اور میںنے اسے بتایا کہ میں بیمار تھا اور ہل نہیں سکتا تھا۔ انہوں نے مجھے گرفتار کیا۔پھر مجھے ایک مسمار شدہ مکان میں ڈال دیاگیا۔ میرے ساتھ کئی دوسرے لوگوں کو بھیوہاں لایا گیا۔ بعد میں ہمیں اسرائیل کے حراستی مراکز میں منتقل کر دیا۔ میں 10 دنجیل میں رہا۔ ہر روز ہمیں مارا پیٹا جاتااور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا، میں نے اپنی زندگی میں یہ تشدد کبھی نہیں دیکھا۔ہمارے ساتھ بربریت اور وحشت پرمبنی سلوک کیا گیا۔
النابلسی نے مزیدکہا کہ "اگر میں مزید دو دن جیل میں رہتا تو میری جان چلی جاتی۔ وہ مجھ سےسرنگوں اور قیدیوں کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں کچھ نہیںجانتا۔ میری عمر 70 سال ہے اور میں خود بوڑھا اور بیمار ہوں”۔
اس نے مزید کہاکہ "ہم نے جیل کے اندر 4 دن تک پانی نہیں پیا، وہ ہمارے سامنے زمین پر پانیڈال رہے تھے، جب ہم پیاسے تھے تو ہمیں اذیتیں دے رہے تھے۔”
اسرائیلی حکام کیطرف سے رہائی پانے والے ایک شہری نضال منصور نے ہسپتال میں اپنی پیٹھ کے بل لیٹےہوئے بتایا کہ نومبر کے وسط میں غزہ شہر کے شمال میں شیخ رضوان محلے میں قابض فوجکی طرف سے اس کے گھر کو تباہ کرنے کے بعد اسے دوسرے لوگوں کے ساتھ گرفتار کیا گیاتھا۔ سینکڑوں دیگر قیدی اب بھی حراستی کیمپوں کے اندر اور غزہ کی پٹی کے آس پاساسرائیلی قابض فوج کے ہاتھوں شدید ترین تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں۔
خان یونس کے رہاہونے والے قیدی خالد النبریص نے اپنے اوپر ڈھائے جانے والے مظالم کے حوالے سے کہاکہ”جب ہمیں خان یونس سے نکالا تو ہم سمندر کی طرف آگئے۔ جب ہم چوکی سے گذرےتو مجھے اسرائیلی فوج نے اغوا کر لیا۔ وہ ہمیں جیلوں میں لے گئے، ہم پر شدید تشددکیا گیا، ہمیں پانی سے بھرے کمبلوں سے ڈھانپ دیا گیا۔ ہم غیر فطری طور پر ٹھنڈےتھے۔
اس نے کہا کہ”فوج نے ہمیں دوسری جگہ منتقل کر دیا۔ وہاں بھی ہمیں مختلف اذیتوں کا نشانہبنایا گیا۔ ہر جگہ پر تشدد کا الگ طریقہ تھا۔ افسر مجھے سر پر مارتا اور جب میںشکایت فریاد تو وہ اور زیادہ درندگی سے مجھے مارتا۔ سردی کی وجہ سے نیند نہیں آتیتھی۔
جسمانی اذیت کے علاوہ ہمیں ایک بڑی نفسیاتی توہیناور گالم گلوچ کا نشانہ بنایا جاتا۔
انہوں نے اپناپیغام دنیا کے لیے بھیجتے ہوئے کہا کہ "ایسے نوجوان ہیں جو جیلوں کے اندرتشدد کے طریقوں سے انتہائی دہشت محسوس کرتے ہیں۔ انہیں دوہرا تشدد کا نشانہ بنایاجاتا ہے۔ ان پر کتے چھوڑے جاتے ہیں۔
غزہ سے حراست میںلیے گئے افراد کو جبری گمشدگی کے جرم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کیونکہ ان کے نام یاحراستی مقامات کو ظاہر نہیں کیا جاتا اور کسی کو ان سے ملنے کی اجازت نہیں ہوتی۔