اسرائیلی وزیردفاع آوی گیڈور لائبرمین نے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی پرعاید کردہ معاشی پابندیوں میں اس شرط پر نرمی کی جاسکتی ہے کہ اگر غزہ میں حماس کے ہاں سنہ 2014ء سے جنگی قیدی بنائے گئے فلسطینیوں کو رہا کردے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق ایک بیان میں لائبرمین نے کہا کہ حماس اگر یہ چاہتی ہے کہ غزہ کے عوام پر پابندیوں میں نرمی کی جائے تو اسے سنہ دو ہزار چودہ کی جنگ میں قبضے میں لیے گئے دو اسرائیلی فوجیوں ہدار گولڈن اور شاؤل ارون کی میتیں واپس کرنا ہوں گی۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق اسرائیلی وزیر دفاع نے ان خیالات کا اظہار کابینہ کی سیاسی وسیکیورٹی کمیٹی کے اجلاس سے خطاب میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ غزہ کی پٹی کو صرف اسی صورت میں سہولیات دی جاسکتی کہ بشرطیکہ کہ حماس اپنے ہاں رکھی گئی فوجیوں کی لاشیں اور زندہ فوجیوں کورہا کرے۔
اسرائیلی سیاسی و سیکیورٹی کمیٹی کے اجلاس میں غزہ کے حوالے سے اقوام متحدہ کے امن مندوب نیکولائی ملا ڈینوف اور اسرائیلی وزیریسرائیل کاٹز کی تجاویز پر غور کررہے تھے۔ ان دونوں نے غزہ کی پٹی میں جنگ سے بچنے کے لیے پابندیوں میں نرمی کی اسکیمیں پیش کی ہیں۔
بعد ازاں ریڈیو سےبات کرتے ہوئے لائبرمین کا مزید کہنا تھا کہ اسرائیل غزہ کی خراب معاشی صورت حال اور بحران کا ذمہ دار نہیں۔ ایک طرف فلسطینی صدر محمود عباس نے غزہ کو رقوم کو منتقلی کا سلسلہ بند کر رکھا ہے اور دوسری طرف خود حماس نےسرنگوں اور راکٹوں کی تیاری کی پالیسی نے مشکلات پیدا کر رکھی ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں لائبرمین کا کہنا تھا کہ جو یہ کہتےہیں کہ غزہ کی معیشت بہتر ہونے سے حالات بہتر ہوں گے اور تشدد ختم ہوگا مگرایسا سوچنے والے غلطی پر ہیں۔ غزہ میں مالی اور معاشی بحران کے حل ہونے کے بعد بھی فلسطینی کاغذی جہاز پھینکیں گے اور حماس راکٹ تیار کرتی رہے گی۔