فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کی شاہراہ نمبر ایک پر واقع ’الخان الاحمر‘ فلسطینی قصبہ ایک بار پھرمقامی فلسطینیوں کے لیے تنگ کردیا گیا ہے۔ صہیونی ریاست نے اس قصبے میں رہنے والے فلسطینی بدوؤں کو وہاں سے نکال باہر کرنے کا فیصلہ کیا اور طاقت کے ذریعے فلسطینی آبادی کی بے دخلی کی تیاری کی گئی ہے۔
جغرافیائی اعتبار سے ’خان الاحمر‘ سنہ 2010ء میں قائم کی گئی دو بڑی یہودی بستیوں’معالیہ ادومیم‘ اور ’کفار ادومیم‘ کے درمیان مرکزی شاہراہ نمبر ایک پر واقع ہے۔
اس قصبے میں زیادہ تر الجھالین قبیلے کے فلسطینی بدو آباد ہیں جب کہ مجموعی طورپر وہاں پر آباد فلسطینی خاندانوں کی تعداد 41 ہے۔ فلسطین کے دیگر علاقوں کی طرح صہیونی ریاست خان الاحمر کی تاریخ، ثقافت، کلچر اور اراضی کو بھی ہتھیانے کی پالیسی پرعمل پیرا ہے۔
خان الاحمر میں کسی دور میں اطالوی شہریوں نے ’ٹائر اسکول‘ قائم کیا اور یہ قصبہ ٹائروں کے حوالے سے کافی مشہور ہوا۔ بعد ازاں یہ ایک عام اسکول میں تبدیل کردیا گیا اور اس اسکول کے مالی انتظامات یورپی یونین کے تعاون سے چلتے رہے۔ اس میں خان الاحمر کی پانچ کالونیوں کے 180 بچے زیرتعلیم ہیں۔
’خان الاحمر‘ کے فلسطینی باشندوں کو صہیونی ریاست کی طرف سے سخت ترین حالات کا سامنا ہے۔ صہیونی ریاست نے وہاں کے باشندوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ مقامی آبادی کے کچے گھروندوں کو باربار مسمار کیا جاتا ہے اور وہ پھر اپنی زمین سے جڑے ہوئے ہیں اور کچی جھونپڑیاں دوبارہ تعمیر کرلیتے ہیں۔ شمالی فلسطین کے جن دسیوں دیہاتوں کو اسرائیل نے غیرقانونی قرار دے کر وہاں پر آباد فلسطینیوں پرعرصہ حیات تنگ کیا ہےان میں ’خان الاحمر‘ بھی شامل ہے۔ صہیونی حکام وہاں کی فلسطینی آبادی کو مشرقی غرب اردن کے اریحا شہر کے مضافات میں ’النویعمہ‘ کے مقام پر منتقل کرنا چاہتے ہیں مگر ’خان الاحمر‘ کے مکینوں نے صہیونی حکام کی طرف سے بے دخلی کی تمام سازشوں کو عملا مسترد کردیا ہے۔
’خان الاحمر‘ کو فلسطینی آبادی سے خالی کرانے کے صہیونی حربے کے پیچھے’E1‘ نامی ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کے منصوبے کو آگے بڑھانا ہے۔ اس منصوبے کا مقصد ’معالیہ ادومیم‘ یہودی کالونی کو مزید وسعت دیتے ہوئےمقبوضہ بیت المقدس سے ملانا ہے۔
’ہم اپنے مقام پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ ہم ’خان الاحمر‘ کو کسی صورت میں نہیں چھوڑیں گے۔ ہمیں اس کا کوئی متبادل مقام نہیں چاہیے۔ ’خان الاحمر‘ ہی ہمارا گھر ہے جسے صہیونی درندوں نے شکار کی طرح چیر پھاڑ کر رکھ دیا ہے۔ صہیونی ریاست صرف اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو آگے بڑھانے کے لیے ہم سے ہمارا علاقہ چھین رہی ہے‘۔ یہ کہنا ہے کہ ’خان الاحمر‘ کی مقامی آبادی کا۔
دو روز قبل اسرائیلی حکام نے ’خان الاحمر‘ کی مقامی فلسطینی آبادی کو آئندہ جمعہ تک علاقہ خالی کرنے کا نوٹس دیا اور دھمکی دی ہے کہ اگر فلسطینیوں نے بستی خالی نہ کی تو وہ طاقت کے استعمال کے ذریعے اسے خالی کرائیں گے۔ اگر خون خرابہ ہوتا ہے تو اس کے ذمہ دار فلسطینی ہوں گے۔
قابض فوج نے ’خان الاحمر‘ کو گذشتہ روز ممنوعہ فوجی علاقہ قرار دے کر فلسطینیوں کی آمد ورفت بند کردی ہے۔ مقامی فلسطینی آبادی کو خدشہ ہے کہ قابض فوج طاقت کا استعمال کرکے انہیں بے پناہ جانی نقصان پہنچا سکتی ہے۔
اسرائیلی حکومت نے گذشتہ برس 24 ستمبر کو اسرائیلی سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ وہ ’خان الاحمر‘ کو طاقت کے ذریعے خالی کرانے کا ارادہ رکھتی ہے اور وہ سنہ 2018ء کے وسط تک اپنے اس پلان پرعمل درآمد کو یقینی بنانا چاہتی ہے۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق صہیونی حکومت ’خان الاحمر‘ کو اس لیے فلسطینویں سے غصب کرنا چاہتی ہے کیونکہ یہ جگہ غیرمعمولی تزویراتی اہمیت کی حامل ہے۔ اسرائیل ’ای ون‘ توسیعی پروجیکٹ کو آگے بڑھانے کے لیے بھی ’خان الاحمر‘ کو خالی کرانے کے لیے کوشاں ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں اور کئی ممالک نے صہیونی ریاست کو خبردار کیا ہے کہ ’خان الاحمر‘ کو طاقت کے ذریعے خالی کرانے کے خطرناک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔