اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] نے صہیونی کنیسٹ میں ’یہودی قومیت‘ سے متعلق ایک نئے نسل پرستانہ قانون کی منظوری کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق حماس کے ترجمان فوزی برھوم نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’یہودیت‘ کو اسرائیلی ریاست کی اساس قرار دینے کے نسل پرستانہ قانون کا اصل ہدف فلسطینی قوم کے وجود کو ختم کرنے کی سازشوں کو آگے بڑھانا، فلسطینیوں کی املاک، زمین، وطن اور مقدسات پر قبضہ کرنے کی راہ ہموار کرنا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ اسرائیلی ریاست کے انتہا پسندانہ اقدامات اور فیصلوں پر عالمی برادری اور علاقائی قوتوں کی خاموشی مجرمانہ پالیسی ہے جس کے نتیجے میں صہیونی ریاست کو اپنے جرائم اور انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
فوزی برھوم کا کہنا تھا کہ فلسطینی قوم کے خلاف اسرائیل کے نسل پرستانہ قوانین حقائق تبدیل نہیں کرسکتے۔ فلسطینی قوم ارض فلسطین کی اصل مالک ومختار ہے اور فلسطین پر کسی دوسری قوم کے تسلط کا کوئی جواز نہیں۔
خیال رہے کہ اسرائیلی کنیسٹ [پارلیمنٹ] نے ایک نیا نسل پرستانہ قانون منظور کیا ہے جس میں یہودیت کو اسرائیل کا قومی مذہب اور یہودی قومیت کو ریاست کی بنیاد قرار دیا گیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق آئینی پر رائے شماری میں 62 ارکان نے حمایت اور 55 نے مخالفت میں ووٹ ڈالا۔
اس موقع پر عرب سیاسی اتحاد کی طرف سے بل کی کاپیاں پھاڑ کراس کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ عرب ارکان کنیسٹ نے اسپیکر’یولی اڈلچائن‘ کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور انہیں ہال سے نکل جانے کو کہا۔
مذکورہ آئینی بل پر دوسری اور تیسری رائے شماری آئندہ بدھ کو متوقع ہے۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے کہا کہ ہرٹزل کے ویژن کے 122 سال کے بعد یہودی قوم آج اسرائیل کو یہودی قومی ریاست بنانے اور اپنے یہودی وجود کو تسلیم کرانے میں کامیاب ہوئی ہے۔
نسل پرستانہ بل میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل یہودیوں کا قومی وطن اور اسرائیل ان کا حق خود ارادیت ہے۔ اسرائیل صرف اور صرف یہودیوں کا ملک ہے اور پوری دنیا میں موجود یہودیوں کو اس کی طرف ھجرت کرنے اور یہاں آباد ہونے کا حق ہے۔ عظیم تر اسرائیل اس کا دارالحکومت اور عبرانی اسرائیل کی سرکاری زبان ہے۔ آج کے بعد عربی زبان قومی زبان کے درجے سے نکل چکی ہے۔ یہ قانون فلسطین میں یہودی آباد کاری اور توسیع پسندی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔