اردن کی حکومت نے اسرائیلی کنیسٹ [پارلیمنٹ] میں منظور ہونے والے یہودی قومیت اور یہودی حق خود اردایت سے متعلق متنازع قانون کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ صہیونی راست متنازع قانون کی مںظوری کے بعد نسل پرستی کی راہ پر چل پڑی ہے۔
اردن کی خاتون وزیر مملکت برائے اطلاعات جمانہ غنیمات نے بیان میں مزید کہا کہ اسرائیل کو ’یہودی قومی مملکت‘ قرار دینے کا قانون سراسر نسل پرستی اور بُغض کا شاخسانہ ہے جس نے صہیونی ریاست کے توسیع پسندانہ اور غاصبانہ قبضے کی پالیسی کو مزید بے نقاب کردیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی ریاست کی طرف سے فلسطین میں یہودی آبادکاری کے فروغ، بدنام زمانہ’اعلان بالفور‘ کے بعد فلسطینی قوم کے حقوق غصب کرنے کے تمام اقدامات، امریکی انتظامیہ کی طرف سے القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے جیسے اقدامات باطل اور ناقابل قبول نہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ فلسطین کا تاریخی تشخص عربی زبان اور عرب تہذیب وتمدن کے ساتھ وابستہ ہے۔ فلسطین میں مختلف مذاہب اور گروہوں کی موجودگی کے باوجود عربی زبان کو ہمیشہ برتر درجہ حاصل رہا ہے مگر صہیونی ریاست ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نسل پرستانہ اقدامات کو فروغ دے رہی ہے۔ الازھر نے فلسطینی قوم کی قربانیوں، ان کے عزم استقلال، اپنی آزاد ریاست کے حصول کے لیے جدو جہد اور القدس کو اس کے دارالحکومت بنانے کے لیے قربانیوں کوتسلیم کیا اور کہا کہ فلسطینیوں کی قربانیاں صہیونی نسل پرستی کو ناکام بنا دیں گی۔
خیال رہے کہ اسرائیلی پارلیمان نے ریاست میں صرف یہود کو حقِ خود ارادیت دینے کے متنازع قانون کی منظوری دے دی ہے۔صہیونی ریاست کی عرب اقلیت نے اس قانون کو نسل پرستانہ قرار دے کر مستر د کر دیا ہے۔
وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کی دائیں بازو کی قوم پرست مخلوط حکومت کی جانب سے پارلیمان میں پیش کردہ ’’قومی ریاست کےقانون‘‘ کے حق میں 62 ارکان نے ووٹ دیا ہے جبکہ 55 ارکا ن نے اس کی مخالفت کی ہے اور دو بل پر رائے شماری کے وقت غیر حاضر رہے تھے۔120 ارکان پر مشتمل پارلیمان کے بعض عرب ارکان نے اس قانون کے خلاف سخت نعرے بازی کی اور اس پر ووٹنگ کے بعد کاغذات پھاڑ دیے۔
انتہا پسند وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے الکنیست میں ووٹنگ کے بعد کہا کہ ’’ صہیونیت اور اسرائیل کی تاریخ میں یہ ایک فیصلہ کن مرحلہ ہے‘‘۔
اس متنازع قانون کا بل اسرائیل کے سترویں یوم تاسیس کے موقع پر پہلی مرتبہ پارلیمان میں پیش کیا گیا تھا اور اس پر دو ماہ سے زیادہ عرصے تک بحث ہوتی رہی ہے۔اس میں کہا گیا ہے کہ ’’اسرائیل یہود کا تاریخی مادرِ وطن ہے اور انھیں اس میں قومی خود ارادیت کا خاص الخاص حق حاصل ہے‘‘۔
اس بل کے تحت عربی کی عبرانی کے ساتھ اسرائیل کی ایک سرکاری زبان کی حیثیت ختم کردی گئی ہے۔اس کا درجہ گھٹا کر اب اس کو ’’خصوصی حیثیت ‘‘ دے دے گئی ہے اور اس کے تحت یہ اسرائیلی اداروں میں مروج رہے گی۔اسرائیل میں آباد عربوں کی آبادی اٹھارہ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔وہ کل 90 لاکھ آبادی کا 20 فی صد ہیں ۔وہ ایک طویل عرصے سے یہ شکایت کرتے چلے آرہے ہیں کہ ان سے اسرائیل میں دوسرے درجے کے شہری کا سا سلوک کیا جارہا ہے۔