انسانی حقوق کیعالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ جب سے اسرائیلی حکومت نے بھوک کو جنگیہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا ہے غزہ میں بچے غذائی قلت سے متعلق پیچیدگیوںسے مر رہے ہیں، جو کہ ایک جنگی جرم ہے۔
ہیومن رائٹس واچکے اسرائیل اور فلسطین کے ڈائریکٹر عمر شاکر نے کہا کہ "یہ ثابت ہو گیا ہے کہاسرائیلی حکومت کی جانب سے بھوک کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے سے غزہ میںبچوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ اسرائیل کو اس جنگی جرم کو ختم کرنا چاہیے، اس مصیبتکو روکنا چاہیے، اورتمام جنگ زدہ علاقوں میں امداد کی فراہمی کی اجازت دی جانیچاہیے۔
تنظیم نے اس باتپر زور دیا کہ بچوں کے ساتھ ساتھ حاملہ اور دودھ پلانے والی مائیں شدید غذائی قلتاور پانی کی کمی کا شکار ہیں۔ ہسپتال ان کے علاج کے لیے فعال نہیں ہیں۔ انہوں نےمتعلقہ حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیلیوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے تل ابیب پرپابندیاں عائد کریں اور ہتھیاروں کی منتقلی کو معطل کریں۔ حکومت اس بات کو یقینیبنائے کہ غزہ کے لوگوں کو انسانی امداد اور بنیادی خدمات کی فراہمی، بین الاقوامیقانون کے تحت اسرائیل کی ذمہ داریوں اور جنوبی افریقہ کی طرف سے نسل کشی کے مقدمےمیں بین الاقوامی عدالت انصاف کے حالیہ حکم نامے پر عمل درآمد کرائیں۔
انہوں نے نشاندہیکی کہ "موجودہ لڑائیوں سے قبل غزہ کی اس وقت کی 2.2 ملین آبادی میں سے تقریباً1.2 ملین کو خوراک کی شدید عدم تحفظ کا سامنا تھا اور ان میں سے 80 فیصد سے زیادہکا انحصار انسانی امداد پر تھا۔ اسرائیل غزہ پر جامع کنٹرول استعمال کرتا ہے، جس میںلوگوں اور سامان کی نقل و حرکت، علاقائی پانی اور فضائی حدود، بنیادی ڈھانچہ جس پرپٹی کا انحصار ہے۔ اسرائیل نے 16سال سے غزہ کی مکمل ناکہ بندی کررکھی ہے جس کی وجہ سے شہری بدترین مشکلات سے دوچارہیں۔