فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے میڈیا میں پیش کردہ سرکاری موقف میں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کی بحالی صرف چار شرائط کے تحت ہی ہوسکتی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق ایک طرف فلسطینی اتھارٹی اور صدر عباس کا اخباری موقف ہے اور دوسری طرف عملی اقدامات اس کی صریحا نفی کرتے ہیں۔ مثال کے طورپر فلسطینی اتھارٹی کا کہنا ہے جب کہ اسرائیل اس کی پیش کردہ چاروں شرائط پرعمل درآمد نہیں کرتا تب تک کسی اسرائیلی لیڈر سے بات چیت نہیں ہوسکتی۔ مگر یہ دعویٰ صرف ہوائی اور خلائی ثابت ہوا ہے۔ صدر عباس روزانہ کی بنیاد پر نہ سہی ہفتہ وار یا ہرماہ اسرائیلی وفود سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ ان ملاقاتوں سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا صدر عباس اسرائیل سے مذاکرات کی بحالی کی اپنی سابقہ شرائط سے دست بردار ہوگئےہیں۔ اگر جواب نفی میں ہے تو یہ ملاقاتیں چہ معنی دارد؟
صدر عباس نہ صرف اسرائیلی وفود سے بے دھڑک مل رہے ہیں بلکہ علاقائی اور فلسطینی سطح پر ان کے ساتھ قضیہ فلسطین کے حوالے سے بھی تبادلہ خیال کیا جاتا ہے۔
کوئی ایک سال پیشتر فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے اسرائیل سے مذاکرات کی بحالی کی چار شرائط کا تذکرہ ہو رہا تھا۔ پہلی شرط فلسطین میں یہودی آباد کاری پر پابندی، دوسری پرانے اسیران کی رہائی، تیسری سنہ 1967ء کی جنگ سے پہلے والی پوزیشن پر اسرائیل کی واپسی پر مذاکرات اور چوتھی مذاکرات کے لیے مدت کا تعین شامل تھا۔
تاہم ان شرائط پر تا حال عمل درآمد نہیں ہوسکا ہے۔ امریکا اور اسرائیل دونوں ہی فلسطینی اتھارٹی کی پیش کردہ شرائط کو عملا مسترد کرچکے ہیں۔ امریکی انتظامیہ نے تو ایک قدم اور آگے بڑھ کر مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دے رکھا ہے۔
محمود عباس اور اولمرٹ ملاقات
اخبار ’یروشلم پوسٹ‘ نے حال ہی میں انکشاف کیا کہ فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے فرانس کے دارالحکومت پیرس میں سابق اسرائیلی وزیراعظم ایہود اولمرٹ سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں انہوں نے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کا عندیہ دیا۔
اسرائیل کے سابق وزیراعظم ایہود اولمرٹ نے کہا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس ایک عظیم رہ نما ہیں۔ انہوں نے اپنے سیکیورٹی اداروں کے ذریعے اسرائیل کوغیرمعمولی نقصان سے بچایا۔ فلسطینی صدر کے زیرانتظام علاقوں میں فلسطینی مزاحمت کاروں نے بڑی تعداد میں اسرائیلی فوجیوں اور تنصیبات پرحملے کرنے کی منصوبہ بندی کی مگر صدر عباس کی کوششوں سے ہم محفوظ رہے۔
عبرانی زبان میں نشریات پیش کرنے والے ٹی وی 124 کو دیے گئے انٹرویو میں اولمرٹ کا کہنا تھا کہ محمود عباس ’عظیم رہ نما‘ ہیں ان کے مقام ومرتبے کا تحفظ اور انہیں تقویت دی جائے۔
ایہود اولمرٹ کا کہنا تھا کہ اگرچہ وہ حکومت کے نمائندہ نہیں مگر وہ اسرائیل کے ایک بڑے طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس لیےوہ محمود عباس سے ملنا چاہتے ہیں۔
خیال رہے کہ حال ہی میں فلسطینی صدر محمود عباس نے کہا تھا کہ ان کے اسرائیلی سیاسی قیادت سے کوئی رابطہ نہیں مگر فوجی اور انٹیلی جنس اداروں کے ساتھ وہ مسلسل رابطے میں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیلی داخلی سلامتی کے خفیہ ادارے ’شاباک‘ کے درمیان سیکیورٹی کے امور میں 99 فی صد ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کی کوشش
فلسطینی تجزیہ نگار اور اسرائیلی امور کے ماہر عماد ابو عواد نے محمود عباس اور ایہود اولمرٹ کے درمیان ہونے والی ملاقات کو مردے کو زندہ کرنے کی کوشش یا کھنڈرات پر کھڑے ہونے کے مترادف قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے بائیں بازو کے دھارے فلسطین۔ اسرائیل سیاسی مفاہمت کے خواہاں ہیں اور وہ فریقین کے درمیان ایک متعین سمجھوتا کرنا چاہتے ہیں۔
ابو عواد کا کہنا تھا کہ فلسطینی اتھارٹی عملا اسرائیل سے مذاکرات کی اپنی شرائط سے دست بردار ہوچکی ہے۔ یہ آج نہیں بلکہ بہت پہلے ہوچکا ہے۔ عموما یہ کہا جاتا ہے کہ محمود عباس نیتن یاھو سے نہیں ملنا چاہتے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاھو خود ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کررہے ہیں اور وہ فلسطینی اتھارٹی کو منہ نہیں لگانا چاہتے۔ امریکا بھی بے جا طورپر فلسطینی اتھارٹی پر دباؤ ڈال رہا ہے۔اسرائیل کو فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کاری کے لیے کھلی چھٹی دی گئی ہے۔ القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیا گیا ہے۔ اسرائیل مذاکرات کے لیے سنجیدہ نہیں۔