روہنگیا مسلمانوں کے خلاف جرائم روکنے میں ناکامی کے بعد کینیڈا کے اراکانِ پارلیمان نے میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی کی اعزازی شہریت ختم کرنے کے حق میں ووٹ دیا ہے۔
آنگ سان سوچی کو سنہ 1991 میں جمہوریت کے لیے ان کی کوششوں کے بدلے میں امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ اس وقت برما کے نام سے پہچانے جانے والے ملک میں فوجی حکومت قائم تھی۔
گذشتہ ماہ اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کہا گیا کہ میانمار کی فوج سے روہنگیا مسلمانوں کے قتلِ عام کے بارے میں تحقیقات کی جانی چاہیے۔
گذشتہ 12 ماہ کے دوران ملک میں تشدد کے باعث سات لاکھ روہنگیا افراد ملک چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوئے۔
کینیڈیا کے دارالعوام میں یہ قرارداد ایسے وقت میں منظور کی گئی جب ایک روز پہلے ہی ملک کے وزیرِ اعظم نے کہا تھا کہ ملکی پارلیمان یہ سوچ رہی ہے کہ آیا آنگ سان سوچی اب بھی اعزازی شہریت کی مستحق ہیں یا نہیں۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس قرارداد سے میانمار کی مسلمان اقلیت کے ان لاکھوں افراد کی حالت زار کا خاتمہ نہیں ہوگا۔
کینیڈا نے چھ معروف افراد کو یہ اعزازی شہریت دے رکھی تھی جن میں سے سوچی ایک تھیں جنہیں سنہ 2007 میں یہ اعزاز دیا گیا۔
یہ اعزازی شہریت کینیڈا کے دونوں ایوانوں میں ایک مشترکہ قرارداد کے ذریعے دی گئی جبکہ اسے باقاعدہ طور پر اسی انداز میں ختم کیا جائے گا۔
میانمار سے فرار ہو کر بنگلہ دیش پہنچنے والے روہنگیا مسلمانوں کی تاریخ پر ایک نظر۔
اس ماہ کے اوائل میں کینیڈا کے دارالعوام نے ایک قرارداد متفقہ طور پر منظور کی تھی جس میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف جرائم کو قتلِ عام قرار دیا گیا تھا۔
آنگ سان سوچی پر مسلمانوں کے خلاف جرائم کے باعث ملکی فوج کی مذمت کرنے کے لیے سخت عالمی دباؤ تھا لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔
اپریل سنہ 2017 میں آخری مرتبہ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’میرا نہیں خیال کہ وہاں نسل کشی ہو رہی ہے۔ میرا خیال ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے اس کے اظہار کے لیے نسل کشی کا لفظ بہت سخت ہے۔