جمعه 15/نوامبر/2024

"غزہ کا معاشی بحران سنگین ہو رہا ہے”

پیر 8-اکتوبر-2018

ایک خطرہ جس کا عرصہ دراز سے خوف لاحق تھا،اب تیزی سے غزہ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ عالمی بنک کی ایک نئی رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ طویل اسرائیلی محاصرہ اور بڑے پیمانے پر سلسلہ وار فوجی حملوں کے بعد اس چھوٹے سے ساحلی علاقے کی معشیت پوری طرح لڑکھڑا گئی ہے۔

نیویارک میں گزشتہ جمعرات بین الاقوامی عطیہ دہندگان کی ایک میٹنگ میں جو اقوام متحدہ کی قومی اسمبلی کے سلانہ اجلاس کے موقعہ پر منعقد ہوئی عالمی بینک نے غزہ کے بحران کی ایک نئی تصویر پیش کی۔ بے روزگاری کی شرح اب 70 فیصد کے قریب پنہچ گئی ہے۔ معاشی گراواٹ اس سے بھی بدتر ہے۔

مغربی کنارہ کی حالت زار اگرچہ اس قدر سنگین نہیں تاہم وہ اس سے بھی زیادہ پیچھے نہیں ہے۔ ایڈہاک رابطہ کمیٹی میں شریک ممالک کو یہ بات بتائی گئی کہ غزہ کابحران فلسطین کے سارے شعبہ بینکنگ کو ڈھا سکتا ہے۔ عالمی بینک کے اس تشویش کے جواب میں یورپ نے فوری طور پر 40 ملین یورو کے پیکیج کا اعلان کیا لیکن یہ امداد غزہ کے انسانی بحران سے نمٹنے میں معاون  ہو گا نہ کہ معاشی بحران کو حل کرنے میں اس سے مدد ملے گی۔

اس میں کسی کو شک نہیں کہ معاشی اور انسانی بحران ناگزیر اثرات غزہ کو اپنی  لپیٹ میں لے رہے ہیں۔ کوارٹٹ کے چار فریقین، امریکہ، روس اور یورپی یونین اور اقوام متحدہ نے جو کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مذاکرات کی ذمہ داری کے نگران ہیں، یہ انتباہی بیان جاری کیا ہے غزہ کی صورت حال کو مزید ابتر ہونے سے بچانا اہم ہو گا۔

اسرائیلی فوج بھی اس تشویش میں شریک ہے۔ اس نے 20 لاکھ مکینوں کے علاقہ میں بڑھتی ہوئی بے چینی سے خبر دار کیا ہےاور اس کا یقین ہے کہ حماس محاصرہ توڑنے کے لیے تصادم پر مجبور ہو گی حالیہ ہفتوں میں غزہ کی باڑ سے متصل عوامی مظاہروں کا احیاء ہوا ہے۔اور گرما گرمی میں قدر توقف کے بعد اس میں توسیع ہوئی ہے۔

جمعہ کو سات فلسطینی مظاہرین بشمول دو بچے اسرائیل نشانہ بازوں کے حملوں میں شہید ہوگئے جب کے سینکڑوں فلسطینی زخمی ہوئے ہیں۔ بہر حال اس صورتحال کا حل ہمیشہ کی طرح ناپید ہی نظر آ رہا ہے۔

غزہ جس کی نوعیت ایک ٹائم بم جیسی ہے بامعنی طور پر کوئی بھی اُس کی ذمداری اُٹھانے کو تیار نہیں اصل فریقین جو فرق پیدا کر سکتے ہیں، اس تباہی کے جاری رہنے کو اجازت دے رہے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو نے خود اپنی ہی فوج کے تنبیہوں کو نظر انداز کر دیا ہے۔ محآصرہ میں نرمی پیدا کرنے بجائے اسرائیل نے اُسے اور بھی سخت کر دیا ہے۔ علاقہ کے اندراور باہر اشیاء کی حمل ونقل روک دی گئی ہے۔

ماہی گیروں کو اوسلو معاہدے کے مطابق 20 میل کے زون کے بجائے ساحل سے 3 میل پر محدود کر دیا گیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے فلسطینوں بشمول اقوام متحدہ پناہ گزین اداروں انروا کے لیے امداد میں کٹوتی کے حالیہ فیصلے نے صورتحال کو اور بھی ابتر کر دیا ہے ۔غذائی بجٹ دسمبر میں ختم ہو جائے گا اور سکولوں کا بجٹ اس ماہ کے اختتام پر ختم ہو جائے گا۔ جس کے بعد ہزارہا بچے مظاہروں کو ہوا دیتے ہوئے اپنے دن گزارنے پر مجبور ہوں گئے اور نتیجتاً میں اُن کی اموات ہو گی۔

محمود عباس کی فلسطینی اتھارٹی جس کا ہیڈ کوارٹر  مغربی کنارے میں ہے، مدد کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ غزہ بتدریج تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جس کا نتیجہ حماس کی جانب سے غزہ کی حکمرانی حوالے کر دینے کی صورت میں برامد ہو سکتا ہے۔ اس لیے فلسطینی اتھارٹی نے غزہ کے لیے ماہانہ 30 میلن ڈالر تک منتقلیوں میں تخفیف کی ہے۔ ویسے بھی عباس مدد کرنا بھی چاہیں تو نہیں کر سکتے اس لیے کہ وہ وسائل سے تہی دست ہیں۔

امریکہ نے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے مجوزہ امن منصوبہ "صدی کی ڈیل” کے لیے اُس کے ساتھ کھیل کھیلنے سے محمود عباس کے انکار پر انہیں سزا دینے کے لیے امداد میں‌ کمی  کی ہے۔ اسرائیل اور عالمی بینک نے فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے اکھٹا کردہ ٹیکس اور محصولات کی منتقلی سے انکار کرتے ہوئے عباس کی مشکلات مزید بڑھا دی ہیں۔ ااور آخری فریق مصر جو غزہ سے متصل ایک مختصرسرحد رکھتا ہے داخلی مسائل سے دوچار ہے۔

صدر ابوالفتح سیسی اسلام پسند حریفوں یا حماس کے ساتھ کوئی رعایت کرنے خلاف ہیں۔

حماس غزہ کی معاشی انحطاط کی کایا پلٹ کے لیے محاصرہ ختم کرنا چاہتا ہے جبکے اسرائیل ہفتہ واری مظاہروں ختم کرانے نشانہ بازوں کی جانب سے نہتے مظاہرین کے قتل کی تصاویر کو رکوانا چاہتا ہے۔ جو اُس کے لیے باعث رسوائی ہے۔

مزید براں نیتن یاہوغزہ میں حماس کے اقتدار کی برقراری میں دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ اُس سے اُنہیں مغربی کنارے کے ساتھ جغرافیائی خلیج کو مظبوط کرنے میں مدد ملے گی اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی میں ٹرمپ نے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ 2 یا 3 ماہ میں امن منصوبہ کو متعارف کروائیں گے۔ اور پہلے مرتبہ یہ کہتے ہوئے 2 ریاستی حل کی حمایت کی کہ یہ بہتر طور پر کارگر ثابت ہو گا۔

بتایا جاتا ہے کہ عباس بڑی حد تک اس بات کو تسلیم کر چکے ہیں کہ فلسطینی ریاست جب کبھی وجود میں آئے تو اُسے غیر فوجی ہونا چاہئے باالفاظ دیگر یہ ایک مقتدر ریاست کی حثیت سے قابل تسلیم نہیں ہو گی۔  دوسری طرف حماس نے تاریخی طور پر فلسطین کے سارے علاقہ کے لیے فوجی مزاخمت کے اصل اپنے موقف پر قابل لحاظ سمجوتہ کیا ہے۔ لیکن یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ وہ عباس کے لیے قابل قبول شرائط پر امن کے لیے تیار ہوں گئے۔

یہ موقف حماس اور عباس دنوں کے درمیان مفاہمت میں حائل رہے گا۔ غرض غزہ کی عوام کے لیے ہمیشہ کی طرح دور تک راحت کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔

لینک کوتاه:

کپی شد

مطالب بیشتر از جوناتھن کک