یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ امریکا کی پشت پناہی سے ایک غاصب، جابر اور وحشی اسٹیٹ اسرائیل نے پوری دنیا کو تگنی کا ناچ نچا رکھا ہے۔ اِس غیر ملکی ریاست کو صرف وہی ملک تسلیم کرتے ہیں جنہوں نے ستر سال قبل اپنی سر زمینوں سے یہودیوں کا پیچھا چھوڑانے کے لیے معصوم عربوں کی سر زمین فلسطین پر قبضہ کر کے اُسے بسایا تھا، یا وہ جنہیں دین اسلام یا امت مسلمہ سے کسی نہ کسی درجہ کدورت ہے۔ اسرائیل اوراس کے ہمنوائوں کی مسلم دشمنی پر مبنی عزائم کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں- ان کی فہرست کافی طویل ہے لیکن اُن میں سے دو معاملے اُن کے نذدیک فوری اہمیت کے حامل ھیں۔اولاً وہ چاہتے ہیں کہ کسی صورت اہل فلسطین کو سر خم تسلیم کروا لیا جائے،اور امریکا سمیت اپنے سفارت خانوں تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے والے ممالک کے خلاف بلند ہونے والی آواز اور مظاہروں کو خاموش کر دیا جائے۔
دوسرا معاملہ امریکا کی نئی مہم "صدی کی ڈیل”سے متعلق ہے جس کی باز گشت گزشتہ کچھ عرصہ سے کثرت سے سنائی دے رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ امریکا جانب سے مسلئہ فلسطین کے تنازع کے حل اور حطے میں پائیدار امن کی ایک نئی کوشش کا آغاز کیا جارہا ہے۔ بلا الفاظ دیگر فلسطینیوں ایک بار پھر نئی امریکی صہیونی سازش کا سامنا ہے۔
روجرڈ معاہدہ، کیسنجر امن پلان، ریگن اقدام، بش، کلنٹن، بش جونیئر اور باراک اوباما کے بعد اب ٹرمپ نے نام نہاد امن اسکیم کے نام سے ایک نیا منصوبہ تیار کیا ہے اور اپنے داماد جیرڈ کوشزاور مشرق وسطی میں امریکی مندوب اسٹیفن گرین بیلٹ کو مشرق وسطی کے ملکوں کواِس اسکیم پر قائل کرنے کی زمداری سونپی ہے۔ بتا دیں کے اِن دونوں شخصیات تعلق یہودی خاندان سے ہے۔ دونوں ہی اسرائیلی مفاد کی بات کرتے ہیں۔ اِن نمائندوں نے اپنے مشن پر کام شروع کرتے ہوئے اُردن کے شاہ عبداللہ ثانی اور سعودی عرب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان، مصری لیڈر عبدالفتاح السیسی اور قطر کے رہنمائوں سے ملاقاتیں کیں، اُردن کےشاہ اور سعودی ولی عہد سے ان کی ملاقات تفصیلات تو منظر عام پر نہیں آئیں، لیکن یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے اس نئی مہم کی غرض وغایت پر گفتگو ہوئی ہو گی۔ اور اِس کو کامیاب بنانے کے لئے امریکا کو ان قابل اعتماد ہمنوائوں کا تعاون طلب کیا گیا ہو گا۔ لیکن مصری صدر عبدالفتاح السیسی کے ساتھ ہوئی ملاقات کا باقاعدہ احوال پیش کیا گیا اور ان کے ساتھ ہوئی ملاقات کو مفید اور حوصلہ افزاء قرار دیا گیا ہے۔
مشرق وسطی کے حالات پر نظر رکھنے والوں کا یہ ماننا ہے کہ امریکا کی نئی اسکیم "صدی کی ڈیل”کے مضمرات چاہے جو ہوں سچ تو یہ ہے کہ اِس حطے کے لئے امریکا نے کبھی امن کے لیے مخلصانہ اور منصفانہ کوشش کی ہی نہیں۔ اور نہ ہی وہ مظلوم قوموں کو انسانیت کے زمرے میں سمجتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے۔ اُس نے کس طرح لاکھوں عراقی، شامی، افغانی، لیبیائی اور یمنی عوام کے خون کی ندیاں بہائیں۔ وہ بظاہر مشرق وسطی میں قیام امن کی بات کرتا ہے لیکن اس حطے سب سے ذیادہ حملے اُسے نے کئے اور پھر سلامتی کے نام پر یہاں کے ملکوں کو سب سے ذیادہ ہتھیار بھی اُسی نے فروخت کیے۔ اسکی پشت پناہی کی بدولت ہی اسرائیل اس حطے میں وحشی بن کر ہی ظلم کی ساری حدوں کو پار کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کا رکارڈ اُٹھا کر دیکھیں کہ جب کبھی کسی عالمی اداروے یا بلاخصوص انسانی حقوق کے فورموں پر مظلوم فلسطینی عوام کی بات کی گئی تو سب سے پہلے امریکا نے ہی اِس کی مخالفت کی یہی نہیں اُس نے فلسطینوں کا قتل عام کرنے والی، اُنہیں گھروں سے جبراَ بے دخل کرنے والی انسانیت دشمن اِس جعلی ریاست کو مدد کے نام پراربوں ڈالرز کا اسحلہ فراہم کیا۔ جسے معصوم فلسطینوں کے قتل عام کے لئے بے دریغ استعمال کیا گیا۔
امریکا کی مذکورہ اسکیم "صدی کی ڈیل” کے متعلق اب تک یہ مشہور ہوا ہے کہ صدر ٹرمپ عرب اسرائیل کشمکش کا تاریخی حل پیش کر رہے پیں۔ جو پائیدار امن کے قیام کا ضامن ہو گا لیکن غیر جانب دار مبصرین کا کہنا ہے کہ اس اسکیم کا خاکہ قطغی طور جانبندرانہ اور غیر منصفانہ ہے۔ دراصل اس اسکیم کے ذریعے امریکا فلسطینی قومی پروگرام کو ختم کر دینا چاہتا ہے۔ صدی کی ڈیل میں پورے بیت المقدس کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کیا گیا ہے اور فلسطینی پناہ گزینوں کے حق واپسی کی کلی طور پر نفی کی گی ہے۔
غرب اُردن میں یہودی کالونیوں کو اسرائیل میں ضم کرنے اور بعض مقمات کو فلسطینی اتھارٹی کے عمل داری میں دینے کے ساتھ غزہ کو شمالی سیناء میں وسعت دے کر ایک بے دست پا فلسطینی ریاست قیام کی بات کی گئی ہے۔ اِس سے صاف انداذہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکا کی ترجیحات کیا ہیں۔ امریکا کی امن کی کوششوں کی نوعیت کا اندازہ اِس کے موقف اور اِس سلسے میں اب اُس کی اب تک کی کارکردگی سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
صدر ٹرمپ نے گزشتہ 6 دسمبر کو یروشلم کی حثیت کے سلسےمیںجو اعلان کیا تھا گزشتہ مئی ڈنکے کی چوٹ پر اُس پر عمل بھی درآمد کر لیا ہے۔ اس طرح امریکا نے اقوام متحدہ اور دنیا کے بیشتر ممالک کے باوجود اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کر کہ اِس دو ریاستی حل کے فارمولے کا بھی جنازہ نکال دیا جو خود اِسی کاپیش کیا ہوا تھا۔ جس کے مطابق اسرائیل کے پہلو بہ پہلو ایک آذاد فلسطینی ریاست کو وجود میں لانے اور اُس کا دارالخلافہ یروشلم کو تسلیم کرنے کی بات کہی گئی تھی۔
امریکی جریدے نیو یارکر نے آپنی ایک رپورٹ میں امریکا کی اِس نام نہاد امن کی تجویز "صدی کی ڈیل”کے مضمرات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے اِس اسکیم کو فلسطینی قوم اجتماعی طور پر مسترد کرتی ہے۔ لیکن دوسری جانب بیشترامریکا نوازخلیجی ممالک ایران کی اندھی مخالفت میں اس کو اندرونی طور پر قبول کر چکے ہیں۔ جبکہ یہ ڈیل مستقبل میں فلسطینی قوم اور خلیجی ریاستوں کے درمیان مخاصمت دشمنوں کے بیج بونے کا موجب بنے گی۔ جریدے کے مطابق اس ڈیل کے حوالے سے امریکا اور اسرائیل میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ دونوں ہی کا مقصد اس اسکیم کے ذریعے خلیجی ممالک اور فلسطینوں کے درمیان دوری اور غداوت پیدا کرنا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ خلیجی ریاستیں فلسطینیوں کو اِیرانی گروپ میں شامل کرتے اُن کے خلاف وہی پالیسی آپنائیں جو اب تک ایران کے خلاف اپنائے ہوئے ہیں۔
"نیو یارکر” نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ ایام قبرص میں متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے حکومتی عہداروں کا ایک خفیہ اجلاس ہوا تھا جس میں امارات کے ذریعے امریکا کی اس نئی اسکیم کی حمایت کی گئی یاد رھے کے چند ماہ قبل اسرائیل عبرانی ٹی وی 10 نے بھی امریکا میں سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلیمان اور یہودی تنظیموں کے مندوبین کے درمیان ملاقات کا انکاشاف کیا تھا۔ عبرانی ٹی وی کے مطابق اس ملاقات میں سعودی ولی عہد نے فلسطینیوں کو صاف لفظوں میں کہا تھا کہ امریکا کی نئی امن اسکیم کو تسلیم کر لیں یا مذکرات کی میز پر آئیں یا اپنا منہ بند رکھیں۔
مذکورہ تمام حوصلہ شکن حقائق کے باوجود اپنی سر زمین کے لیے فلسطینیوں کا عزم واستقلال امریکی واسرائیلی ناپاک عزائم کے سامنے کسی آہنی چٹان کی ماند ٹکا ہوا ہے۔ فلسطینی عوام صہیونیوں کی ہر یلغار کے سامنے سینہ سپر ہیں۔ مسجد اقصی قبلہ اول کے امام اور ممتازفلسطینی عالم دین الشیخ محمد سلیم نے "صدی کی ڈیل ” کو عالم اسلام کے خلاف ایک نئی سازش قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکا، اسرائیل اور بعض دیگر طاقتوں کی معاونت اور پشت پناہی سے مسجد اقصی کے تاریخی، دینی اور قانونی اسٹیٹس کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اُنہوں عالم اسلام سے متفقہ طور پر صدی کی ڈیل سمیت تمام ظالمانہ اور غیر دانشمندانہ اعلانات فیصلوں اور اقدمات کو مسترد کرنے کی اپیل کی ہے۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ "صدی کی ڈیل ” معاصر تاریخ کی سب سے بڑی گھائونی سازش ہے اور اُس کا ہدف صرف فلسطینی قوم نہیں بلکہ پورا عالم اسلام ہے ۔
اِس سازش کو صیہونی سامراجیت کی جانب سے جنگ ایک نئی شکل کے طور پر دیکھنا چائیے۔ اس پورے تناظرمیں یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ مشرق وسطی میں قیام امن کی خاطر کوئے بھی ڈیل ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتی کہ جس میں فلسطینی قومی اصولوں اور اُن کے دیرینہ مطالبات کو تسلیم نہ کیا گیا ہو یہ بھی ایک مسلم حقیقت ہے کہ فلسطینی قوم القدس اور فلسطینی مقدسات دستبردار نہیں ہو سکتی۔ لہذا تمام عرب ممالک اور مسلم دنیا فلسطینوں کے عزم و استقلال اور اُن کی قربانیوں کو فراموش کرنے کی غلطی نہ کریں۔ بلکہ امریکا و اسرائیل کی ناپاک سازشوں کو وقت رہتے اچھی طرح سمجھ لیں۔ اور اپنے باہمی اختلاف کو بالائے طاق رکھ کر امریکا کی صہیونیت نوازی اور اس کے کھلے جانبدارانہ کردار کے خلاف آپنی خاموشی توڑ کر حق کی طرف داری کے لیے ٹھوس موقف اختیار کریں۔ بشکریہ روز نامہ انقلاب