اسرائیلی سپریم کورٹ نے بدنام زمانہ صہیونی انٹیلی جنس ایجنسی "شاباک” کے جلادوں کو حراست میں لیے گئے فلسطینیوں سے تفتیش کے دوران انتہائی خطرناک اور پرتشدد ہتھکنڈے استعمال کرنے کی باقاعدہ اجازت دے دی ہے۔
فلسطین میں اسیران کے حقوق کے ذمہ دار ادارے کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ انٹیلی جنس ادارے نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں عدالت سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ تفتیش کاروں کو فلسطینی قیدیوں پر تشدد کے "خصوصی” حربے استعمال کرنے کی اجازت دے۔ ان حربوں میں اسیران کو نیند سے محروم رکھنا، تشدد کے دوران بجلی کے کرنٹ لگانا، مار پیٹ کے دوران خطرناک آلات کا استعمال کرنا جیسے حربے شامل ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ صہیونی سپریم کورٹ کے جج جسٹس ڈیوڈ مینٹز نے اس درخواست پر اپنا الگ نوٹ لکھا جب کہ بینج میں شامل دو دوسرے ججوں یتزحاق عمیت اور یوسف الرون نے خطرناک حربے استعمال کرنے کی اجازت دی۔
تاہم انسانی حقوق کے ادارے کا کہنا ہے کہ صہیونی خفیہ ادارے نے جن ہتھکنڈوں کی اسرائیلی سپریم کورٹ سے اجازت حاصل کی ہے وہ پہلے ہی ماورائے قانون چوبیس گھنٹے استعمال کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ان خوفناک اور پرتشدد حربوں کے نتیجے میں اب تک کئی اسیران تشدد کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ چکے ہیں۔
خیال رہے کہ حال ہی میں سنہ 2011ء میں گرفتار کیے گئے فلسطینی فارس طبیش نے رہائی کے بعد اسرائیلی عدالت میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ دوران حراست حماس سے تعلق کے الزام میں صہیونی جلادوں نے اسے ہولناک تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ صہیونی تفتیش کاروں نے اس پر تشدد کے انتہائی خطرناک حربے استعمال کیے۔