مصطفیٰ قبہاء کا تعلق مقبوضہ مغربی کنارے کے شمالی شہر جنین کے جنوبی قصبے یعبد سے ہے۔ وہ طویل عرصے سے معذور اور خصوصی افراد کے کوٹے سے ملازمت کے حصول کے لیے کوشاں ہیں مگر حالات ان کے حق میں تبدیل نہیں ہوسکے ہیں۔
قبہاء کا کہنا ہے کہ میں نے سناہے کہ فلسطینی اتھارٹی متعدد ایسے خوبصورت قوانین منظور کر چکی ہے جن میں فلسطینی معذوروں کو حقوق دلانے کی بات کی گئی ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے مصطفیٰ قبہا نے کہا کہ تین دسمبر کو عالمی سطح پر معذروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر فلسطینی معذوروں کو بھی اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کا آئینی حق ہے۔ معذور بھی اپنے خاندان کی کفالت اور باعزت زندگی گذارنے کا حق رکھتے ہیں۔ ہمیں بھی گاڑیوں میں عزت سے سفر کرنے، باعزت روز گار حاصل کرنے اور اپنے خاندان کو عزت کے ساتھ جینے میںمدد کرنے کا حق رکھتے ہیں۔
انہوں نے دکھ بھرے لہجے میں کہا کہ فلسطین میں معذور افراد کے لیے کوئی ادارہ ہے نہ منزل اور ہی کوئی تحفظ حاصل ہے۔ قانون ہمیں ہمارے حقوق دہلیز پر فراہم کرنے کی تاکید کرتا ہے مگر دوسری طرف زمینی حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ہم روز مرہ کی بنیاد پر قیمت چکا رہے ہیں اور ہم ہی قربانی کا بکرا بنائے جاتے ہیں۔
ایک دوسرے معذور جو نابینا ہیں نے اپنا تعارف مصطفیٰ الجوھری کے نام سے کرایا۔ اس نے بتایا کہ وہ فلسطین میں معذوروں کے حقوق کے لیے جدو جہد کرنے والوں میں پیش پیش ہیں مگر ان کے حقوق کی مہم بہت سست روی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ معذوروں کا احساس محرومی مسلسل بڑھ رہا ہے۔
حق تلفی جاری
حال ہی میں مقبوضہ مغربی کنارے میں معذور فلسطینیوں نے انسانی حقوق کے کارکنوں کے ساتھ مل کر ایک مہم شروع کر رکھی ہے۔ "کسٹم ٹیکس سے استثنیٰ میرا حق” کے عنوان سے اس مہم کے تحت معذوروں کو کسٹم ٹیکس سے مستثنیٰ کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
معذور فلسطینی مصطفیٰ الجھوری نے کہا کہ ہمیں معذور ہونے کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ہمیں ہمارے بنیادی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے حالانکہ ایک معذور فلسطینی بھی قوانین کے تحت اتنے شہری حقوق کا حق دار ہے جتنا کہ کوئی تندرست شہری ہوتا ہے۔
معذور فلسطینیوں کی فیڈریشن کے چیئرمین رفیق ابو سیفین نے مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ برسوں کے دوران معذور فلسطینیوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ وہ جن حقوق اور مطالبات کا تقاضا کررہے ہیں اس کے حق دار ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ غرب اردن میں معذوروں کے کوٹے کا صرف 5 فی صد انہیں ادا کیا جاتا ہے۔