مقبوضہ بیت المقدس کی ایک مرابطہ زینۃ عمرو نے اپنے دورہ ملائیشیا کے دوران کہا ہے کہ صہیونی ریاست القدس کو یہودیانے کے لیے ہرحربہ استعمال کررہی ہے۔ ان کاکہنا ہے کہ صہیونیوںنے القدس پر قبضہ مضبوط بنانے کت لیے تمام وسائل جھونک دیے ہیں۔
کولالمپور میں آمد کے بعد مرکزاطلاعات فلسطین کو دیئے گئے انٹرویو میں فلسطینی مرابطہ کا کہنا تھا کہ ‘ہم صہیونی ریاست سے القدس اور مسجد اقصیٰ المبارک کے حوالے سے وحشت اور بربریت کے سوا اور کسی چیز کی توقع نہیں رکھتے’۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی تمام ریاستی مشینری، اس کے سیکیورٹی اور اقتصادی ادارے القدس کو خالص یہودیوں کا شہر بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔
اہلیان القدس پر دبائو
ایک سوال کے جواب میں زینۃ عمرو کا کہنا تھا کہ صہیونی ریاست کی طرف سے بیت المقدس کے فلسطینی باشندوں کو وہاں سے نقل مکانی کے لیے سخت دبائو کا سامنا ہے۔ القدس سے فلسطینیوںکو نکال باہر کرنا بھی شہرکو یہودیانے اور اس کی املاک پرقبضے کی سازشوں کا حصہ ہے۔ آنے والے وقت میں بیت المقدس کے فلسطینی باشندوں پر اسرائیل مزید دبائو ڈالے گا۔ اسرائیل موجودہ حالات کو القدس اور مسجد اقصیٰ پر اپنی بالادستی کے قیام کے لیے انتہائی موزوں خیال کرتا ہے اور یہودی ریاست کے خواب کی تعبیر کے لیے مناسب موقع سمجھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کو اندازہ ہے کہ عرب اور مسلمان حکمرانوںکو القدس اور مسجد اقصیٰ سے کوئی سروکار نہیں رہا ہے۔ وہ اپنے اپنے مدار میں گردش کرتے ہیں اور اسرائیل کے ساتھ دوستی کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں فلسطینیوں پر مظالم کی کوئی پرواہ نہیں۔ اس وقت اسرائیلی ریاست کے جرائم کا مقابلہ کرنے والا کوئی نہیں رہا ہے۔
ایک دوسرے سوال کے جواب میں زینۃعمرو نے فلسطینی قوتوں میں پائے جانے والے اختلافات کو قوم کے لیے زہرقاتل قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کی باہمی رسا کشی سے اسرائیل فائدہ اٹھا کر اپنے نسل پرستانہ منصوبوں کو آگے بڑھا رہا ہے۔ جب تک ہم ایک دوسرے کا دست وباز بن کر اسرائیل کے مقابل نہیں کھڑے ہوں گےدشمن ہم پر دبائو ڈالتا اور ہمارے تصور سے بھی بڑھ کر تشدد کا استعمال کرے گا۔
یہودی پروگرام ناکام بنانے کی کوشش
ایک سوال کے جواب میں زینۃعمرو کا کہنا تھا کہ بیت المقدس فلسطینی باشندوں کا قبلہ اول کے ساتھ مضبوط تعلق اور مسلسل ربط مقدس مقام کے دفاع میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ فلسطینیوں کے قبلہ اول کے ساتھ ربط و تعلق کی بدولت مسجد اقصیٰ کو یہودیانے کی صہیونی سازشی پروگرام کو ناکامی کا سامنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مسجد اقصیٰ میں جگہ جگہ علمی مجالس کے ذریعے صہیونی ریاست کے قبلہ اول پر قبضے کے پروگرام کو ناکام بنا دیا گیا ہے۔ اسرائیل جب یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے پروگرام کو ناکامی کا سامنا ہے تو وہ علمی اور تدریسی عمل پر حملہ کرتا ہے۔
پورا بیت المقدس خطرے میں ہے
زینۃ عمرو نے ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اس وقت پورا بیت المقدس خطرے سے دوچار ہے۔ صہیونی سازشوں سے بیت المقدس، اس کے تمام فلسطینی باشندے، ،مرابطین سب اس وقت دبائو کا شکار ہیں۔ زخمی،غموں، مشکلات، فقر اور دیگر مشکلات کا شکار ہیں۔
انہوںنے کہا کہ بیت المقدس میں بسنے والے فلسطینیوں کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ القدس میں رہنےوالے فلسطینیوں کا سب سےبڑا مسئلہ تلاش معاش ہے، مکان کومسماری سے بچانا، گرفتاری، شہر بدری اور ھجرت سے بچنا ہے۔
انہوںنے مزید کہا کہ صہیونی دشمن نے بیت المقدس میں زندگی کے تمامم شعبوں کے خلاف جنگ مسلط کررکھی ہے۔ مقامی فلسطینی آبادی کو انی مشکلات میں الجھا دیا گیا ہے تاکہ وہ انہیں قبلہ اول سے تعلق کی فرصت ہی نہ ملے مگر ان تمام مشکلات کےباوجود مرابطین نے قبلہ اول کے تحفظ کا عزم کر رکھا ہے۔
مرابطین آندھی کی زد میں
بیت المقدس کی سماجی کارکن اور قبلہ اول کی محافظہ زینۃ عمرو کا کہنا تھا کہ بیت المقدس کے فلسطینی مسلسل صہیونیوں کی آندھی اور طوفان کی زد میں ہیں۔ انہیں مسلسل گرفتاریوں اور تشدد کا سامنا ہے۔ ان کی نقل وحرکت پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے۔ اب اس سے آگے بڑھ کر ان پرتشدد، تذلیل، گرفتاریوں، بے دخلی جیسے جرائم کا سامنا ہے۔ خاص طورپر مسجد اقصیٰ سے محبت کرنے والوں کے لیے یہ سب کچھ بہت مشکل ہے۔
انہوںنے کہا کہ مرابطین اور ان کے اہل خانہ کو علاج کی سہولت سے محروم کردیا گیا۔اگر ہم اپنے حقوق کے حصول کے لیے کوئی کوشش کرتے ہیں تو القدس میں ہمارے وجود کو ختم کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ اس طرح اسرائیل ہماری جڑوں کو اکھاڑ رہا ہے۔ اسرائیلی فوج نے القدس میں موجود زینۃ عمرو کا مکان مسمار کرنے کا نوٹس بھی جاری کیا ہوا ہے۔
ملائیشیا القدس میں موجود
زینۃ عمرو نے کہا کہ ملائیشیا آ کرمجھے حیرت ہوئی کہ یہاں کےلوگوں اور حکومت کو القدس کے ساتھ کس قدر گہری دلچسپی ہے۔
یہاں کی حکومت نے ہمیں القدس کے حوالے سے اپنا پیغام دینے کاموقع فراہم کیا۔ ہمیں اس پربہت خوش اور اطمینان ملا۔ ہم یہاں القدس کا پیغام پہنچانے آئے ہیں مگر یہاں آکر معلوم ہوا کہ القدس کا پیغام ہم سےپہلے یہاں پہنچ چکا ہے۔ ہم یہاں سے القدس واپس جار رہےہیں۔ ہمارے جذبات جوان ہیں۔ ہم اس امید کے ساتھ یہاں سے لوٹیں گےکہ صہیونی ریاست کےغاصبانہ تسلط کے خاتمے کا وقت اب زیادہ دور نہیں رہا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے گفتگو سمیٹتے ہوئےانہوںنے کہا کہ ہم کڑے وقت سے گذر رہےہیں مگر اس مشکل بحران سے جلد نکل جائیں گے۔ ہم سے اللہ نے جو وعدہ کیاہے وہ جلد پورا ہوگا۔