فلسطین میں انسانی حقوق کے اداروں کی طرف سے جاری کردہ رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی حکومت غزہ کے مریضوں کو غرب اردن، القدس اور سنہ 1948ٕٕء کےعلاقوں میں علاج کے لیے سفر سے محروم رکھنے کا سلسلہ نہ صرف جاری ہے بلکہ رواں سال اس میں 8 فی صد اضافہ ہوا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں ڈاکٹر فار ہیومن رائٹس اور المیزان مرکز برائے انسانی حقوق کی طرف سے اسرائیلی سپریم کورٹ میں ایک درخواست دی گئی ہے جس میں غزہ کے مریضوں کو علاج کی سہولت سے محروم کرنے کا سلسلہ بند کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ عدالت میں دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی کے مریضوں کو فلسطین کے دوسرے علاقوں میں سفر کی اجازت دینے سے انکار بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے بیان میںکہا گیا ہے کہ حال ہی میں ایک 15 سالہ فلسطینی بچی امراض چشم کا شکار ہے علاج کے لیے غزہ سے باہر دوسرے فلسطینی علاقوں میں جانا چاہتی تھی مگر اسرائیلی حکومت نے اجازت نہیں دی۔
انسانی حقوق کی مندوبہ تامر بلانک نے صہیونی حکومت کی طرف سے غزہ کے مریضوں کو صرف اس شرط پر دوسرے علاقوں میں علاج کی اجازت کی دی جاتی ہے کہ ان کا کوئی قریبی عزیز ان علاقوں میں مقیم ہو۔ اگرغزہ کے کسی مریض کا کوئی قریبی عزیز غرب اردن، شمالی یا جنوبی فلسطین میںموجود نہ ہو اسے علاج کے لیے سفری سہولت کی اجازت نہیں دی جاتی۔
انسانی حقوق کے اداروں کے مطابق صہیونی حکام نے 2017ء کے دوران 208 خواتین اور 171 مرد مریضوں کو دوسرے علاقوں میں علاج کی اجازت دینے سے انکارکیا جب کہ رواں سال یہ تعداد 433 تک جا پہنچی ہے۔ ان میں 186 خواتین اور 247مرد مریض شامل ہیں۔