رواں ہفتے فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمودعباس نے فلسطینی پارلیمنٹ پر شب خون مارتے ہوئے پارلیمنٹ تحلیل کردی اور آئندہ چھ ماہ کے دوران انتخابات کرانے کا بھی اعلان کیا ہے۔
صدرعباس کے اس اقدام کو فلسطین کے سیاسی اور عوامی حلقوں نے مسترد کردیا ہے۔ صدر عباس نے دلیل دی ہے کہ چونکہ ان کی قائم کردہ ایک نام نہاد آئینی عدالت نے فلسطینی پارلیمنٹ تحلیل کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس لیے انہوں نے عدالت کے فیصلے پرعمل درآمد کیا ہے۔
فلسطینی ماہرین قانون نے بھی صدر عباس کے فیصلے کو خلاف قانون، بنیاد فلسطینی آئین کے متصادن اور فلسطینی سیاست پرنیا حملہ قرار دیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین نے ماہرین کی آراء کی روشنی میں صدر عباس کے فیصلے کے اثرات اور مضمرات پر روشنی ڈالی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر عباس کا یہ دعویٰ کہ انہوں نے دستوری عدالت کے فیصلے پرعمل درآمد کیا ہے فلسطینی اتھارٹی کے اقدامات اور فیصلوں سےانحراف ہے۔
اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” نے صدر عباس کے فیصلے کو ظالمانہ اور عددی سیاست پرحملہ قرار دیا ہے۔
حماس اور فلسطین کی دوسری تنظیموں نے فلسطینی مجلس قانون ساز کو تحلیل کرنے کی کوئی آئینی اور دستوری حیثیت ہے۔ تمام فلسطینی جماعتوں کا کہنا ہے کہ صدر عباس کی قائم کردہ دستوری عدالت ہی غیر قانونی ہے۔
بے وقعت
بیرون ملک فلسطین نیشنل کانفرنس کے چیئرمین انیس القاسم نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مجلس قانون ساز کو تحلیل کرنا بے مقصد ہے اور اس کی کوئی سیاسی اور آئینی حیثیت نہیں۔ صدر عباس کے فیصلے سے فلسطین میں غیرقانونی سیاسی صورت حال پیدا ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ صدر عباس کا فیصلہ فلسطینی اتھارٹی کی قیادت سے مایوسی کا عکاس ہے کیونکہ قضیہ فلسطین سے بڑھ کر فلسطینی مجلس قانون ساز نہیںہوسکتی۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی اور صدر عباس کی جانب سے فلسطینی پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کا فیصلہ ہر اعتبار سے باطل ہے۔
دستوری عدالت کیا ہے؟
فلسطین کی بیت لحم یونیورسٹی کے پروفیسر اور بین الاقوامی قوانین کے ماہر عبداللہ ابو عید کا کہنا ہے کہ صدر عباس نے ایک نام نہاد دستوری عدالت قائم کی ہے جس کی قیادت محمد عبدالغنی احمد الحاج قاسم کو سونپی گئی ہے۔ صدر عباس کی قائم کردہ اس شخصیت کا آئین اور قانون سے کوئی تعلق نہیں۔
ابو عید نے مرکزاطلاعت فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دستوری عدالت میں بہت سے سقم پائے جاتے ہیں۔ صدر عباس نے اپنے من پسند شخص کو اس عدالت کا سربراہ مقرر کرکے بہت بڑی غلطی کی ہے۔