سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان آج اتوار کو پاکستان کے دورے پراسلام آباد پہنچے ہیں۔ وہ اس دورے کے دوران پاکستان کے بعد انڈونیشیا اور ملائیشیا بھی جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ تاہم ان کے دورے میں باربار تاخیر اور شیڈول میں تبدیلی کئی سوالات کو بھی جنم دے رہی ہے۔
ایشیائی ممالک میں سعودی ولی عہد کو وہ احترام نہیں مل پایا جو عام طور ماضی میں سعودی رہ نمائوں کو حاصل رہا ہے۔ اگرچہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے کسی بڑے پیکج کا بھی اعلان کرنے والے ہیں اور اسلام آباد اور الریاض دونوں اس دورے کو غیرمعمولی اہمیت دے رہے ہیں۔
سعودی ولی عہد کو ہفتے کو اسلام آباد پہنچنا تھا مگر ان کے شیڈول میں اچانک تبدیلی کا اعلان کیا گیا۔ اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ان میں ایک بڑی وجہ انسانیحقوق کے حلقوں کا محمد بن سلمان کی ذات اور ان کے اقدامات پر اٹھائے گئے سوالات بھی ہیں۔ ان کے خلاف پاکستان سمیت بعض دوسرے ملکوں میں صحافی جمال خاشقجی کے استنبول میں قتل کے جرم میں ملوث ہونے کے خلاف مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔
ملائیشیا اور انڈونیشیا کی حکومتوںنے بھی سعودی ولی عہد کے دورے کے بارے میں کہا ہے کہ محمد بن سلمان کا دورہ غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی ہوگیا ہے۔ الجزیرہ کے نامہ نگار سامر علاوی کا کہنا ہے کہ سعودی عرب انڈونیشیا اور ملائیشیا میں بڑے پیمانے پرسرمایہ کاری کا ارادہ رکھتا ہے۔
رواں سال انڈونیشیا میں صدارتی انتخابات ہو رہے ہیں اور یہ دورہ موجودہ حکومت کے لیے ایک بار پھر حکومت سازی کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔ مگر ملائیشیا میں عوامی اور سیاسی حلقوں میں سعودی ولی عہد کے دورے کو زیادہ خوش آئند قرار دنہیں دیا جا رہا ہے۔
ملائیشیا کے وزراء سے جب پوچھا گیا کہ سعودی ولی عہد نے اپنا دورہ غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کیوںکیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہم بھی سنا ہے مگر اس کی تفصیلات کا ہمیں بھی علم نہیں۔
ملائیشین وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہےکہ سعودی وزیر مملکت برائے خارجہ امور عادل الجبیر نے اپنے ملائیشین ہم نصب سیف الدین عبداللہ کو ٹیلیفون کرکے بتایا کہ ولی عہد کا دورہ ملتوی ہوگیا ہے۔ ادھر ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے بھی بتایا ہے کہ انہیں سعودی عرب کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ ولی عہد کا دورہ ملتوی ہوگیا ہے۔
الجزیرہ کے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ سعودی ولی عہد کے دورے میں تاخیر کی وجہ انسانی حقوق کی تنظیموں کا ان کے خلاف انتظامیہ دارالحکومت پتراجایا میں احتجاجی مظاہروں کا اعلان ہے۔ وہ اسی شہر میں وزیراعظم اور دیگر رہ نمائوں سے ملنے کا پروگرام بنا رہے تھے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں ولی عہد محمد بن سلمان پر اپنے ملک میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں، یمن پر جنگ مسلط کرنے اور صحافی جمال خاشقجی کو ترکی میں سعودی قونصل خانے میں دھوکے سے بلا کر بے دردی کے ساتھ قتل کرکے اس کی لاش تک کو غائب کرنے کا الزام عاید کیا جاتا ہے۔ مہاتیر محمد جمال خاشقجی کےقتل کو وحشیانہ اور ناقابل قبول فعل قرار دیا تھا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ قطر کا معاشی اور سفارتی بائیکاٹ اور لبنان کا معاشی محاصرہ بھی سعودی ولی عہد کی کارستانیوں میں شامل ہے اور عالمی سطح وہ جب بھی کسی ملک کا دورہ کرنے کا پلان بناتے ہیں تو ان کے یہ اقدامات اس کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔