فلسطینی شعبہ امور اسیران ومحررین کی طرف سے جاری رپورٹ میں زیر حراست فلسطینی خاتون اسراء جعابیص کے ساتھ صہیونی جیلروں کے مجرمانہ برتائو پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق امور اسیران کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسراء جعابیص کی طبی حالت اس کی اسیری اور اسرائیلی جیل حکام کے مجرمانہ غفلت کے باعث انتہائی تشویشناک ہوچکی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسراء جعابیص کی طبی اور نفسیاتی حالت خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے اور صہیونی جیل حکام اس حوالے سے مجرمانہ غفلت اور لاپرواہی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ غرب اردن کی 31 سالہ اسراء جعابیص کی داستان بھی کم دلخراش نہیں۔ جعابیص جس صبرو احتساب کے ساتھ ایام اسیری کاٹ رہی ہیں وہ انہی کی شخصیت کا خاصہ ہے۔
اسراء جعابیص غرب اردن کے شمالی شہر ریحا سے بیت المقدس روزانہ کام پر جاتی تھیں۔ سنہ 2015ء میں انہوں نے منصوبہ بنایا کہ چونکہ ان کی رہائش گاہ ان کی ملازمت کی جگہ سے دور واقع ہے۔ اس لیے بیت المقدس شہر کے اندر اپنے دفتر کے قریب کسی جگہ رہائش اختیار کریں۔ وہ بیت المقدس میں ایک کار رجسٹریشن دفتر میں ملازمت کرتی تھیں۔
یہ 11 اکتوبر 2015ء کا واقعہ ہے جب اسراء جعابیص نے اپنے گھر سے ضروری سامان ایک ٹیکسی پر ایک ٹی وی سیٹ، گھر میں استعمال ہونے والا ایک گیس سلینڈراور دیگر سامان لادا اور بیت المقدس روانہ ہوگئیں۔ راستے میں بیت المقدس کے قریب پہنچے پر ایک زور دار دھماکہ ہوا۔ یہ دھماکہ گاڑی کے اندر کسی دھماکہ خیز چیز کا نہیں تھا بلکہ وہ ٹیکسی کے اسٹیئرنگ کے ساتھ متصل ایک چھوٹے سلینڈر کا تھا جس کے نتیجے میں گاڑی میں آگ بھڑک اٹھی۔
چونکہ اسراء جعابیص بھی اس آگ کی لپیٹ میں آ کر بری طرح جھلس گئی تھیں، اس کے کپڑے تک جل گئے اور اس کے دونوں ہاتھوں کہ انگلیاں بری طرح جھلس گئی تھیں۔ موقع پر موجود ایک فلسطینی نوجوان نے اس کی مدد کی اور آگ میں جھلسی جعابیص پر اپنی جیکٹ ڈالی۔ کچھ ہی فاصلے پر موجود اسرائیلی پولیس پہلے تو یہ سارا تماشا دیکھتی رہی۔ کافی دیر گذرنے کے بعد آئی بھی تو اسراء جعابیص پر فدائی حملے کا کیس بنا کر اس کے خلاف عدالت میں مقدمہ قائم کر ڈالا۔ اسراء جعابیص جو شدید طور پر جھلسنے کے باعث اسپتال منتقل کر دی گئی تھیں اسرائیلی پولیس کی تفتیش کا سامنا کرنے لگیں۔
پہلے پہل تو اسرائیلی پولیس نے تسلیم کیا کہ یہ کوئی حملہ یا کارروائی نہیں بلکہ محض حادثہ تھا مگر بعد میں صہیونی حکام اپنے دعوے سے پھر گئے اور اسراء کے خلاف باطل الزام میں مقدمہ کی کارروائی شروع کر دی۔
گرفتاری اور الزام
اسراء جعابیص کا کہنا ہے کہ اسے وہ لمحات اچھی طرح یاد ہیں جب وہ ایک حادثے کے نتیجے میں کار میں ہونے والے دھماکے میں جھلس گئیں تو ان کی مدد کو کوئی نہیں پہنچا وہ مدد کے لیے پکارتیں رہیں مگر اسرائیلی پولیس اس کی مدد کے بجائے اسے زخمی حالت میں گرفتار کرنے کے لیے پہنچی۔
اس پر الزام عاید کیا اسراء اسرائیلی فوجیوں اور پولیس پرحملہ کرنا چاہتی تھیں۔ صہیونی فوج اور پولیس کے پاس اپنے اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت بھی نہیں تھا۔ اس کے باوجود وہ عدالت میں اس کے خلاف مقدمہ کی کارروائی شروع کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اسراء جس کا جسم دھماکے میں 50 فی صد جھلس گیا تھا کو ایک طرف شدت کی جسمانی تکلیف تھی اور دوسری طرف روزانہ کی بنیاد پر صہیونی تفتیش کار اس کی اسپتال میں پہنچ کر تفتیش کر رہے تھے۔
صہیونی پراسیکیوٹر نے اسراء کے فیس بک صفحے کا مطالعہ کیا جس میں اس کی طرف سے اسرائیلی جارحیت کے خلاف کچھ پوسٹس شیئر کی گئی تھیں۔ صہیونی حکام انہی پوسٹس کی بنیاد پر اسراء کے خلاف مقدمہ کی کارروائی آگے بڑھائی۔ دوران علاج اسراء کو یہودی آباد کار آئے روز ذہنی اور نفسیاتی ٹارچر کا نشانہ بناتے۔ حتیٰ کہ اسپتال کا عمل بھی اس کے ساتھ توہین آمیز سلوک کرتا۔ اسے کہا جاتا ہے وہ ایک دہشت گرد ہے اور اسے کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہیے۔
اسراء ابھی اسپتال ہی میں زیرعلاج تھی کہ عدالت نے اس کی عدم موجودگی میں اسے گیارہ سال قید کی سزا سنادی۔ علاج ابھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ صہیونی پولیس نے اسے اسپتال سے گرفتار کیا اور بے دردی کے ساتھ ھشارون جیل میں ڈال دیا۔