یورو-میڈیٹیرینینہیومن رائٹس آبزرویٹری نے کہا ہے کہ 7 مئی کو "اسرائیلی” قابض فوج کے قبضےمیں آنے کے بعد غزہ کی پٹی اور مصر کے درمیان رفح لینڈ کراسنگ کی مسلسل بندش سےفلسطینی شہریوں کے لیے تباہ کن انسانی بحران کی سنگینی میں اضافہ ہوا ہے اور ساتاکتوبر سے جاری اسرائیلی نسل کشی میں اضافہ ہوا ہے۔
’یورو مڈ‘ جو انسانیحقوق کے لیےکام کرنے والا یورپی اور عرب گروپ ہے نے بتایا کہ "اسرائیل”نے رفح کراسنگ کو بند کر کے غزہ کی پٹی پر اپنی بھاری گرفت مضبوط کر دی ہے اورمحاصرہ کر کے اسے بیرونی دنیا سے مکمل طور پر الگ کر دیا ہے۔ یہ ایسے وقت میں ہواہے جب اسرائیل زخمیوں اور بیماروں کو محروم کرنے کے لیےہسپتالوں پر بمباری کررہا ہے، ایمبولینسوں اور طبی عملے کو نشانہ بنا رہا ہے۔ بیرونملک جان بچانے والے علاج کے حصول کے لیے سفر کرنا مزید مشکل بنا دیا گیا ہے۔
یورو میڈ نےخبردار کیا ہے کہ اسرائیلی فوجی حملے کے نتیجے میں زخمی ہونے والے گیارہ ہزار سےزائد افراد کو علاج کے لیے غزہ کی پٹی سے باہر جانے کی فوری ضرورت ہے اور رفحکراسنگ کی بندش نے اس مقصد کو حاصل کرنے سے روک دیا ہے، ایسے وقت میں جب مزید10000 سے زیادہ کینسر کے مریضوں کو موت کا خطرہ ہے، جن میں تقریباً 750 بچے بھیشامل ہیں۔
غزہ میں فلسطینیوزارت صحت اور طبی امدادی تنظیموں کے عہدیداروں نے یورو میڈیٹیرینین ٹیم کو اطلاعدی ہے کہ گذشتہ اکتوبر سے اب تک کینسر کے چار ہزار سے کم مریضوں نے بیرون ملک علاجکے لیے غزہ چھوڑنے کی اجازت حاصل کی ہے لیکن حقیقت میں صرف 600 کے قریب مریض ہیباہر نکلے ہیں۔
تیس سالہ موناعبدالرحمٰن ابھی تک ان مریضوں کی فہرست میں شامل ہونے کا انتظار کر رہی تھی جنہیںچھاتی کے کینسر کے علاج کے لیے سفر کرنے کی اجازت دی گئی تھی، لیکن رفح کراسنگ کیبندش نے اسے واپس کے علاج کے سفر میں کامیابی نہیں مل سکی۔
تنظیم نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ صحت کا نظام شدیدطور پر بگڑ رہا ہے اور زیادہ تر مقامی ہسپتال سروس سے محروم ہیں، غزہ کی پٹی میں کینسرکے مریضوں کے پاس اپنی بیماری کا کوئی علاج نہیں ہے۔ چاہے وہ بیماری ہارمونل ہو یا امیونولوجیکل ہو۔اس کے علاوہ کیموتھراپی کے لیے بنیادی ڈھانچے کا فقدان ہے اور اسرائیل نے ہسپتالوںکو تباہ کرکے بنیادی سہولیات کا وجود ہی ختم کردیا ہے۔