ماہ صیام کے آتے ہی پوری دنیا میں روزے کے اوقات کے حوالے سے بحث چھڑ جاتی ہے۔ یہ بحث ایک بار پھرزوروں پر ہےکہ آیا جن خطوں میں سورج غروب نہیں ہوتا وہاں کے مسلمان افطار اور سحر کا تعین کیسے کرتےہیں؟۔
زمین کے بعض خطے ایسے ہیں جہاں اور دن اور رات کےدرمیان زیادہ فرق نہیں ہوتا۔ دوسرے الفاظ میں دن اتنا طویل ہوتا ہے کہ اس میں رات کا تعین نہیں ہو پاتا۔ آئس لینڈ،ناروے اور فن لینڈ اس کی مثالیں ہیں۔
خط استواء پر واقع سعودی عرب، سینگاپور اور انڈونیشیا میں دن اور رات کے اوقات میں کوئی زیادہ فرق نہیں پڑتا۔
زمین کے شمالی علاقوں میں قطبی دائرے میں موجود ممالک میں مسلمانوں کو گرمیوں میں ماہ صیام کی صورت میں ایک بحران کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
آئس لینڈ میں گرمیوں میں سورج رات کو غرب ہوتا ہے اور غروب ہونے کے صرف دو گھنٹے بعد ہی طلوع ہوجاتا ہے۔
ناروے کے مسلمان 20 گھنٹے اور 20 منٹ کا روزہ رکھتے ہیں۔ رواں سال شمالی خطوں کے ممالک میں 21 گھنٹے 51 منٹ کا روزہ ہے۔
ناروے کے لاپلینڈ میں سورج پوری رات غروب نہیںہوتا۔ یوں اس جگہ کےمسلمانوں کو 23 گھنٹے 30 منٹ تک بھوک اور پیاس برداشت کرنا پڑتی ہے۔ انہیں ایک طویل مشقت کاسامنا کرنا پڑتا ہے مگر وہاں کے مسلمانوں کو مشرق وسطیٰ میں اپنے اپنے ملکوں اور یا ترکی کے اوقات کے مطبق افطار اور سحرکریں گے۔
ناروے میں مسلمانوں کی تعداد 2 لاکھ ہے۔ان میں مقامی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ تارکین وطن کی بڑی تعداد شامل ہے۔ ان میں پاکستان، عراق، مراکش، ترکی اور دوسرے ملکوں کے باشندے شامل ہیں۔ سعودی عرب کی علماء کونسل نے مشورہ دیا ہے کہ اگر شمالی خطوں کے مسلمانوں کو 23 گھنٹے کا طویل روزہ رکھنا پڑتا ہے تو انہیں روزہ رکھنا چاہیے۔ اس کےتین حل بیان کیے گئے ہیں۔ جن ممالک میں سورج غروب نہیںہوتا وہ اپنی اپنی مساجد کے مطابق افطار اور سحرکا اہتمام کریں۔ دوسرا حل یہ ہے کہ قطبی دائرے کے ممالک کو اپنے قریب ترین مسلمان ملک کے اوقات پرعمل کرناچاہیے۔ آئیس لینڈ میں 22 گھنٹے کا روزہ رکھنے والے مسلمانوں نے اپنے اپنے ملکوں کے نظام الاوقات کو اختیار کیا۔