حال ہی میں امریکا میں رہا ہونے والے فلسطینی سائنسدان عبدالحلیم الاشقر نے کہا ہے کہ FBI انہیں اسرائیل کے حوالے کرنے کی کوشش کر رہی تھی مگر اسے اس میں ناکامی ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مجھے اسرائیل کے حوالے کرنا امریکا کی ‘قذاقی’ اور بنجمن نیتن یاھو کی معاونت کے مترادف تھا۔
مرکز اطلاعات فلسطین کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں عبدالحلیم الاشقر نے کہا کہ اگرچہ انہیں امریکی جیل سے رہا کیا گیا مگرانہیں ڈر ہے کہ امریکا انہیں دھوکا دے سکتا ہے۔
انہوں نے زندہ ضمیر انسانیت سے اپنے ساتھ اظہار یکجہتی کا مطالبہ کیا۔ اپنے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے فلسطینی ذرائع ابلاغ کی کوریج کی تعریف کی اور کہا کہ مجھے ایف بی آئی نے 11 سال تک ظالمانہ طریقے سے اغواء کیے رکھا گیا۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر عبدالحلیم الاشقر نے کہا کہ امریکا میں ان پر عاید کردہ الزامات میں ایک الزام یہ تھا کہ میں نے امریکی عدالتی اور قانونی معاملے میں مداخلت اور عدلیہ کی توہین کی ہے۔ مجھ سے کہا گیا کہ میں امریکا میں اسلامی تحریکوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف گواہی دوں۔ میںنے انکار کیا تو مجھ پر توہین عدالت کا الزام عاید کر کے جعلی مقدمہ چلایا گیا۔
انہوںنے کہا کہ مجھ پر تشدد کے لیے مجھے اسرائیل کے حوالے کر کے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کو مضبوط کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ وہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرسکیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکی حکام نے میرے پائوں کے ساتھ جاسوسی کا آلا ‘جی پی ایس’ باندھ کری میری جاسوسی کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ میں اپنے خاندان کے ذریعے کسی ایسے ملک کا ویزہ حاصل کرنا چاہتا ہوں جہاں مستقل بنیادوں پر قیام کرسکوں۔
خیال رہے کہ امریکا نے ڈاکٹر عبدالحلیم الاشقر کو مسلسل 11 سال تک پابند سلاسل رکھا۔ ان پر فلسطینیوں کی حمایت میں کام کرنے والے کارکنوں کے خلاف گواہی نہ دینے اور اسلامی تحریک مزاحمت ‘حماس’ کے ساتھ تعلق کے الزام میں مقدمات چلائے گئے۔
ڈاکٹر الاشقر کی اہلیہ نے مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب امریکی عدالت نے ان کے شوہر کواسرائیل کے حوالے نہ کرنے کا حکم دیا تو اسرائیل نے مداخلت کرکے انہیں دوبارہ امریکا بھیجنے کی مہم چلائی۔
قبل ازیں پروفیسر الاشقر کے بھائی موئید الاشقر نے مرکز اطلاعات فلسطین کو دیے گئے انٹرویو میںکہا تھا کہ انہوں نے ذاتی طور پر فلسطینی اتھارٹی کی وزارت خارجہ کے حکام کے ساتھ رابطہ کیا تاکہ امریکا میں رہائی پانے کے بعد وہ اپنے بھائی کو کسی دوسرے ملک بھجوا سکیں۔
خیال رہے کہ رہائی کے بعد 61 سالہ فلسطینی پروفیسر نے بتایا کہ امریکی خفیہ اداروں نے جاسوسی کے لیے اس کے پائوں کے ساتھ "GPS” سسٹم نصب کر رکھا ہے۔
پروفیسر الاشقر کے خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ رہائی کے بعد عبدالحکیم الاشقر کو فوری طور پر ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔ حال ہی میں اس وقت عالمی سطح پر ایک نئی تشویش کی لہر اس وقت دوڑ گئی تھی جب یہ خبریں آئیں کہ امریکا فلسطینی سائنسدان کو اسرائیل کے حوالے کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس پر فلسطینی اور عالمی انسانی حقوق کے حلقوں کی طرف سے سخت غم وغصے کا اظہار کیا گیا تھا۔
پروفیسر الاشقر کے خاندانی ذرائع کا کہنا تھا کہ امریکا میں قید کی سزا پوری کرنے کے بعد ایک خصوصی طیارہ پروفیسر الاشقر کو اسرائیل لے جائے گا۔
سنہ 1958ء کو غرب اردن کے شہر طولکرم میں پیدا ہونے والے فلسطینی عبدالحلیم الاشقر لبنان، امریکا، یونان اور کئی دوسرے ملکوں کی جامعات سے فارغ التحصیل ہیں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ شخصیت سمجھے جاتے ہیں۔ وہ امریکا کی مختلف جامعات میں پڑھاتے رہے ہیں۔ گرفتاری سے قبل وہ امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی سے وابستہ تھے۔ سنہ 2003ء میں انہیں اسلامی تحریک مزاحمت ‘حماس’ کے ساتھ تعاون اور جماعت کے لیے فنڈنگ کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔
تاہم انہیں اس کے بعد رہا کر کے گھر پر نظربند کردیا گیا تھا۔ سنہ 2007ء کو انہیں دوبارہ گرفتار کیا گیا اور ان پر حماس سے تعلق کےالزام میں مقدمہ چلایا گیا ہے۔