اسرائیل کے ایک سینیر تجزیہ نگارسیور پلاٹزکر نے خلیجی ریاست بحرین میں ہونے والی نام نہاد اقتصادی کانفرنس کو امریکا اور اسرائیل کا ایک نیا ناکام تجربہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مناما کانفرنس مایوس کن اور ایک ناکام تجربہ ہے جس کا امریکا اور اسرائیل کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
عبرانی اخبار ‘یدیعوت احرونوت’ میں شائع ایک مضمون میں صہیونی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ امریکی پلان میں یہ نہیں بنایا گیا کہ اسے کس حد تک سنجیدہ لیا جائے گا۔ اس کے علاوہ اس کانفرنس میں پیشہ وارانہ صلاحیت کا فقدان پایا گیا اور زمینی حقائق سے نظریں چرائی گئیں۔
مسٹر پلاٹزکر نے کہا کہ بحرین کانفرنس نے سنہ 1994ء کی مراکش کانفرنس کی یاد تازہ کر دی۔ 1994ء میں مراکش کے شہر دارالبیضاء میں چار طیاروں پر لوگ ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے پہنچے۔ یہ بھی ایک اقتصادی کانفرنس تھی جو مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقا کے حوالے سے اوسلو معاہدے کے بعد منعقد کی گئی تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ مراکش کانفرنس میں بھی نقشوں، فرضی اعدادو شمار اور خلائی منصوبوں کی بھرمار تھی اور یہ منصوبہ یوسیف فردی نے تیار کیا تھا۔ اس میں اسرائیلی عملے کے ماہرین، اردن ، فلسطین اور مصر کے مبصرین شامل تھے۔ اس کانفرنس میں بھی بڑے بڑے اقتصادی منصوبوں،بنیادی ڈھانچے کے مشترکہ منصوبوں اور تفصیلی پروگرامات کی منظوری دی گئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ مراکش میں ہونے والی اقتصادی کانفرنس کے حوالے سے بعد ازاں ‘ نیا مشرق وسطیٰ’ کے عنوان سے ایک کتاب بھی شائع کی گئی اور یہ کتاب سابق صدر اسحاق رابین کے ایک مقرب نے انہیں تحفے میں دی تھی۔
اسرائیلی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ مناما کانفرنس اور دارالبیضاء کانفرنس میں اسرائیلیوں کے لیے ایک ہی طرح کے منصوبے تھے مگر آج ان کا کوئی وجود نہیں۔